بھگوا تنظیموں کی شرانگیزی اورپولیس کے جابرانہ رویہ کا شاخسانہ گؤ کشی کے نام پر اقلیتی فرقہ کو بلاوجہ تنگ کرنیکے معاملات میں اضافہ!

سہارنپور( آمنا سامنا میڈیاخاص خبراحمد رضا) پولیس ذرائع کے مطابق گزشتہ روز کسی فرد کی جانب سے دیگئی گؤ کشی کی اطلاع پر مظفر نگر شہر کوتوالی کے انسپکٹر سنجیوکمار سب سے حساس محلہ کھالاپار کے قصابان گلی میں اچانک مع فورس مستقیم کی دکان پر پہنچے جہاں دکان کے باہر گوشت کے کچھ پیس نظر آئے تبھی شہر کوتوال سنجیو کمار نے مستقیم کو دبوچ لیا اور اسکے ساتھ ہی دو دیگر افراد کالا اور حاجی سرفراز کو بھی پکڑکر اپنی گاڑی میں بٹھالیا تبھی سیکڑوں علاقائی افراد نے پولیس پر حملہ بول دیا اور تینوں افراد کو بھاری مشقت کے بعد پولیس سے چھڑا لیا بہ مشکل پولیس اپنی جان بچاکر بھاگی اس واقعہ کی اطلاع جب اے ڈی جی نظم ونسق آنند کمار کو میرٹھ دیگئی تو انہوں نے فوری طور پر ملزمان کو گرفتار کرنے اور بلوائیوں کے خلاف سخت کاروائی کے احکامات جاری کئے تبھی دوبارہ پولیس بھاری فورس کے ساتھ علاقہ میں گئی اور جگہ جگہ دبش دیکر بہت سے افراد سے ملزمان کی بابت پوچھ تاچھ کی اور دیر شام شہر کوتوالی میں مستقیم، کالا اور حاجی سرفراز اور دیگر پچاس افراد کے خلاف علیحدہ علیحدہ دو مقدمات درج کئے گئے سی او کی زیر سرپرستی کھلا پار علاقہ میں پولیس گشت بڑھادیگئی ہے علاقہ کو چھاؤنی بنایا گیاہے اسی طرح سے عید کے دن تھانہ بہاری گڑھ کے علاقہ میں ایک جانور کا سر بر آمد ہوجانے کے نتیجہ میں یہ افواہ اڑادیگئی کہ گؤ کشی کی گئی ہے دیکھتے ہی دیکھتے یہاں بھی بھاری بھیڑ جمع ہوگئی مگر سہارنپور کے پولیس چیف ببلو کمار نے بھیڑ کو پر امن رہنے اور باریکی سے جانچ کے بعد یہ معاملہ خد سلجھانے کا بھروسہ دیکر حالات کو قابوکیا لیکن مظفر نگر میں ایسا کچھ نہی ہوا سیدھا مستقیم کو گرفتار کیا گیا اسلئے وہاں معاملہ اتنا بڑھا اگر وہاں بھی پولیس سمجھداری سے کام کرتی تو مظفر نگر کے حالات بھی پر امن ر ہ سکتے تھے عام چرچہ ہیکہ یہاں پولیس کی زور و زبر دستی نے ہی حالات بگا ڑے ہیں اگر پولیس پہلے پوچھ تاچھ کرتی پھر گرفتاری کرلیتی تو معاملہ پتھراؤ اور فائرنگ کے تبادلہ تک نہی پہنچ سکتا تھا مگر کسی بھی اطلاع پر ہر قسم کے گوشت کو گائے کا گوشت بتا نا او رپھر بے قصوروں کی گرفتاری کرناہی مغربی اتر پردیش میں فساد کا سبب بنتا جارہاہے اگر حالات پر منصفانہ رخ نہی اپنایا گیا تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں؟
قابل امر بات ہیکہ بھگوا تنظیموں کے کارکنان کبھی گنگوہ کبھی نکوڑ کبھی رامپور اور کبھی بہاری گڑھ تھانوں کے ماتحت پڑنے علاقوں میں گؤ کشی کے نام پر چھینٹا کشی، مارپیٹ، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے کی شرمناک وارداتیں پولیس کے سامنے انجام دیتے آرہے ہیں جہاں عید کے دن تھانہ بہاری گڑھ کے علاقہ میں سینی برادری کے چند افراد نے پورے گاؤں یہ افواہ پھیلادی کے کہ ایک خاص فرقہ کے افراد نے گؤ کا سرکاٹ کر سڑک کنارے پھینک دیاہے اس مسئلہ کو لیکر عید کے دن ضلع بھر میں تناؤ پھیل گیا ہزاروں لوگ گاؤ ں کی جانب دوڑ پڑے ضلع کے افسران اور پولیس گؤ رکشکوں کو مطمئن کرتی رہی اور حالات کو پر امن بنانیکی غرض سے ادھر ادھر بھاگتی رہی دوسری جانب فرقہ پرستوں نے ضلع کو جلانے کی نیت سے ملزمان کو پکڑنیکی بلاوجہ کی ضد پکڑ لی اور ہنگامہ شروع کئے رکھا بہ مشکل کافی دیر بعد سینئر افسران کے سخت ایکشن لئے جانے کے وعدے کے بعد گاؤں میں شانتی دیکھنے کوملی چند ماہ قبل ہی رام پور اور ملہی پور میں پولیس چوکی کے نزدیک بھینس اور بیل سے لدی پکپ گاڑی کو آگ کے حوالہ کردیا گیاتھا آج تک ایک بھی ملزم گرفتار نہی ہوسکااسکے علاوہ بھی چند ماہ قبل ہی سیکڑوں لوگوں نے تھانہ رامپور منیہاران ہائی وے پر پولیس کی موجودگی میں غنڈہ گردی کرتے ہوئے آزادانہ طورپر بیخوف رہتے ہوئے جانوروں سے لدی پکپ گاڑی کو آگ کے حوالہ کردیا اتناہی نہی بلکہ ان غنڈوں نے گاڑی میں موجود سواریوں کوبھی بری طرح سے زرد کوب کیا اور سڑک پر غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا اطلاع ملتے ہی ایس ایس پی فوری طور پر مع فورس موقع پر گئے اور پولیس سے کہکر شر پسند عناصر پر لاٹھیا گھماکر بہ مشکل ماحول کو آلودہ ہونے سے بچایا اس واقعہ کی بابت ہر طرح سے قابل ایس ایس پی کی تعریف کیجارہی ہے کہ انہوں نے اپنی بہترین عملی کارکردگی سے اس ضلع کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھلسنے سے بچایا مگر دوماہ سے پھر اسی طرح کے تنازعات کو اس ضلع میں بلاوجہ سے اچھال؛ا جارہاہے اور نشانہ صرف مسلم افراد کوہی بنایا جارہاہے پولیس بھینس کے گوشت کو بھی گائے اور بیل کا بتاکر بھگوا کارکنان کا تعاون کرتی نظر پڑ رہی ہے جس وجہ سے امن کی بجائے کشیدگی بڑھ رہی ہے عید کے دن تھانی پریکشت گڑھ اور اگلے دن کوتوالی مظفر نگر کے علاقہ کھالاپار میں بھی پولیس گاؤ کشی کے الزام میں تین افراد کو پکڑ کر لیگئے کچھ منٹ بعد سیکڑوں لوگوں نے کوتوالی پر دھاوا بول کر تینوں ملزمان کو پولیس حراست سے آزاد کرا لیا نتیجہ کے طور پر موانہ اور مظفر نگر میں بھاری تنائع برقرار ہے جگہ جگہ فورسیز کا گشت جاری ہے! اہم بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ چھ دنوں کی مدت میں کمشنری کے تینوں اضلاع میں گؤ کشی کے نام پر اقلیتی فرقہ کو حراساں کرنے ، زرد کوب کرنے اور فرضی مقدمات میں پھنسانے کے تین درجن معاملات سامنے آچکے ہیں پولیس کی جانبدارانہ اور بغیر جانچ کسی کوبھی گرفتار کرلینے کی بھیڑ چال نے اب عوام کو اس بات کیلئے مجبور کر دیاہے کہ وہ تھانوں سے حراست میں لئے گئے افراد کو چھڑائیں تھانہ پریکشت گڑھ اور مظفر نگر کی ان دونوں وارداتوں نے جہاں کمشنری کے ماحول کو گرما دیاہے وہیں امن پسن افراد کیلئے بھی بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوچکاہے آپکو بتادیں کہ گاؤ کشی کی بے بنیاد خبروں اور افواہوں کے نتیجہ میں سہارنپور کمشنری میں ہی تین دن میں چھہ واقعات رونما ہوچکے ہیں مگر مقامی پولیس بھگوا کارکنان کے سامنے تماشائی بنی رہتی ہے اب نئے ایس ایس پی ببلو کمار کے خوف سے مقامی پولیس نے فرسٹ ٹائم گاؤکشی کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں پر لاٹھیاں برسائیں اور بڑھتے جھگڑے کو فوری طور پر کنٹرول کرلینے کے ساتھ ساتھ بے قصور افراد کو بھی گرفتار کرلینے سے صاف منع کردیاہے نئے ایس ایس پی ببلوکمارنے کھلے الفاظ میں کہاکہ اب اس ضلع میں یہ رویہ برداشت نہی کیا جائیگا جہاں جرائم پیشہ کو بخشا نہی جائیگا وہیں بے قصور کو بھی چھیڑاتک نہی جائیگا جو بھی ہوگا وہ سہی جانچ کے بعد ہی ہوگا اور لاپرواہ پولیس اسٹاف کو بھی معاف نہی کیا جائیگا ضلع کے واقعات پر پولیس چیف نے واقعہ کی جانچ کے ساتھ ساتھ اصل ملزموں کو جلد از جلدگرفتار کر تے ہوئے انکے خلاف کڑی کاروائی کے احکامات جاری کئے ہیں اس وقت حالات پوری طرح سے پر امن بنے ہیں مگر ضلع کے درجن بھر گاؤں کے علاقوں میں کشیدگی پائی جارہی ہے پولیس گشت بڑھادیگئی ہے از خد ایس ایس پی ببلو کماراور ہمارے کلکٹر نے لاء اینڈ آڈر کی کمان خد سنبھال لی ہے ہر واقعہ پر باریکی کے ساتھ جانچ کیجاری ہے!
ضلع کے سوشل کارکنان ، دانشور اور باضمیر سیاسی طبقہ نے ان وارداتوں کی زبردست مذمت کرتے ہوئے سیدھے الفاظ میں کہا ہے کہ یوپی میں سیاسی سرپرستی کے رہتے غنڈہ راج چل رہا ہے اقلیتی فرقہ کو تعصب کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگاہے ہر کہیں پر گؤ کشی کے نام پر مسلم افراد کو نشانہ بنایا جارہاہے گؤ رکشا کے نام پر غنڈہ گردی کرنیوالے افراد سیاست دانوں کے عزیز و اقارب ہیں اور مختلف قسم کی بھگوا تنظیموں سے وابستہ ہیں اسلئے ان غنڈوں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ کسی بھی صورت پولیس سے ڈر ہی نہیں رہے ہیں اور قانون کوبھی اپنے ہاتھ میں لینے سے قطعی ڈر نہی رہے ہیں؟آجکل ویسٹ یوپی میں پولیس کیسامنے ہی غنڈہ گردی اور مافیائی گروہ کار اج کاج لگاتار ہاوی ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے موجودہ ڈی جی پی سلکھان سنگھ ایماندار ، بے لوث اور محنتی سینئر پولیس افسر ہیں ریاستی پولیس کے مکھیا ہیں مگر جب تک سیاسی اثر اور دباؤ پولس افسران پر رہے گا تب تک اکیلے ڈی جی پی بھی کرائم پر اپنی پولس سے کنٹرول نہیں کرا سکتے ہیں سہی کام کیلئے کسی طرح کا دباؤ نہی بلہ آزادی چاہئے اور وہ ریاست کے افسران کو حاصل ہی نہی ہے اسی لئے ڈی جی پی سہی طور سے جو کام عملی طور پر انجام دے رہے ہیں دوسری جانب سیاسی اثر و رسوخ والے سماجی اور سیاسی کارکن پولس پر دباؤ بناکر غنڈوں اور مافیاؤں کو پولس گرفت سے لگاتار بچاتے آرہے ہیں اور اقلیتی فرقہ پر لگاتار نشانہ لگانے سے باز نہی آرہے ہیں جو قابل تشویش کارکردگی ہے ان دنوں ڈی جی پی کی ایمانداری بھی بے سود ہو کر رہ گئی ہے!