بیقصورافرادکوسالہاسال جیل میں رکھنے والے افسران کیخلاف سخت ایکشن لیا جا نا بیحد ضروری۔احسان الحق ملک
سہارنپور( آمنا سامنا میڈیاخاص خبر احمد رضا) قابل ذکر ہے کہ مسلم اقوام کو بین الاقوامی سطح پر ہندوستان اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیز کے چند فرقہ پرست افسران بدنام کرنے کی ایک خطرناک سازش پر گزشتہ پچیس سالوں سے کامزن ہیں تبھی تو مرکزی سرکار اور ریاستی سرکاریں آ ج تک ملک دشمنی اور دہشت گردی کے جھوٹے معاملات میں مسلم افراد کو جان بوجھ کر پھنساتی آرہی ہیں اور ان جھوٹے مقد مات سے بری ہوئے مسلمانوں کو لمبے عرصہ تک جیل میں رکھنے والے پولس اور خفیہ ایجنسیوں کے افسران کے خلاف کار وائی کرنے سے بھی آج تک کیوں گریز کر رہی ہے جب یہ لوگ بیقصور تھے تب انکو سالہا سال جیل میں قید کس کی شہ پر رکھا گیا اور جب سات، آٹھ، دس اور چودہ سالوں بعد مززر عدالتوں نے انکو بری کیا تو انکو جھوٹا پھنسانے والے افسران کے خلاف آج تک کاروائی کیوں نہی ہوئی ہے افسوس صرف اس بات کا ہے کہ جب مرکزی سرکار اور صوبائی سرکار کے قائد مسلمانوں سے ہمددردی کا نعرہ دیتے ہیں اور اپنے کو آئین ہند کا تابع مانتے ہیں تب مسلم اقوام کے ساتھ یہ جبر اور یہ نا انصافی کیوں اس طرح کے جھوٹے معاملات میں بری ہوئے مسلمانوں کو لمبے عرصہ تک جیل میں رکھنے والے پولس اور خفیہ ایجنسیوں کے افسران کے خلاف کار وائی کیاجانا آئین کی شان ہوگی مرکزی سرکار کیلئے اب ۲۰۱۹ کے لوک سبھا الیکشن سے قبل ہمارے ان سوالات کا جواب دینا اشد ضروری ہوگیا ہے اگر آپ دستور ہند کو مانتے ہیں تب دستور ہند کے مطابق ہمارے حقوق کا تحفظ بھی ضروری ہے!
پچھڑا سماج مہا سبھاکے قومی سربراہ احسان الحق ملک نے مندرجہ بالاخیالات کا اظہار آج ایک پریس ریلیز کے ذریعہ کرتے ہوئے کہا کہ سرکار کے اقلیتی تحفظ کے لاکھ وعدے اور وحید کے بعد بھی پورے ملک میں پولس اور خفیہ یونٹ اقلیتوں بلخصوص مسلم نو جوانوں کو کزشتہ ۲۵سالو سے اپنی بدنیتی اور متعصبانہ دشمنی کا شکاربناتی آرہی ہیں گزشتہ ۲۵ سالو سے مسلمانوں سے دہشت گردی کے فرضی الزامات میں گرفتار کر ۱۴۔۱۴ سال تک ان کو جیل میں رکھنا، اب پولس اورخفیہ یونٹ کی عادت سی بن گئی۔پچھلے تین سال کی مدت سے پہلے لگاتار دس سالوں تک مرکز میں یو ۔پی۔اے۔ کی سرکار برسرے اقتدار رہی۔ میڈم سونیا گاندھی اور وزیرے اعظم من موہن سنگھ نے ہزاروں بار اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں مسلمانوں پر ظلم اور جبر نہیں ہوگا پولس اور خفیہ یونٹ نے جن بے قصور مسلمانوں کو جیل میں ڈالا ہوا ہے ان کو رہا کرایا جائیگا مگر افسوس کی بات ہے کہ این ڈی اے سرکار سے قبل یوپی اے سرکار اپنے دس سالہ دور میں مسلمانوں کے لئے وہ سب نہ کر سکی جس کا اُس نے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ کیا تھا جوکام منموہن سنگھ کی سرکار دس سالوں نہی کر سکی بھلا این ڈی اے کی مودی سرکار وہ کام تین سال میں کیسے کر سکتی ہے ! پچھڑا سماج کے قومی صدر احسان الحق ملک کا کہاناہیکہ آج دہلی، حیدر آباد ، کولکوتہ ہ، ممبئی ، جے پور، پھوپال اوریوپی ہائی کورٹ کی معزز عدالتیں مقدمات کی سماعت کے دوران پولس اور خفیہ ایجنسیز کے متعصب رویہ کے چلتے دہشت گردی کے الزام میں اٹھ سال ، دس سال اور چودہ سال جیل میں رہنے والے مسلمانوں پر لگے الزامات کی بابت ٹھوس ثبوت چاہتی ہے تو خفیہ ایجنسیاں عدالت کے سامنے مسلمانوں کے دہشت گردی میں شامل ہونے کے پختہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتی ہیں نتیجہ کے طور پر مندرجہ بالامعزز عدالتوں نے بے باکی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کو رہا کرنے کے احکامات کے ساتھ ساتھ ہی پولیس و خفیہ ایجنسیزکو بیقصورمسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے اور آدھی عمر تک جیل میں ڈالے رکھنے کے غیر ذمہ دارانہ معاملے پر بھی زبردست لتاڑ لگائی ہے اس طرح عدالتوں نے درجنوں مسلم افراد کو رہا کرا یاہے جو قابل تحسین قدم ہے۔ گزشتہ دنوں بہار کے ویشالی علاقہ کے رہنے والے محمد عبداللہ کو کلکتہ پولس نے ۱؍۳؍۲۰۰۶ کو مدرسہ جامعہ سلفیہ بنارس کے ناظم اور بنارس کے ایس۔ایس۔پی کی موجودگی میں پاسپورٹ کی بابت پوچھ تاچھ کے لئے اپنے ساتھ لے گئی تھی اور جھوٹا مقدمہ بناکر محمد عبداللہ کو دیگر دو ساتھیوں طارق اور نور الرحمان کے ساتھ ملک سے غداری کرنے کے الزام لگاکر جیل میں ڈال دیا تھا نتیجہ کے طور پر محمد عبداللہ آٹھ سال تک جیل میں رہے اور بے قصور ہونے کے بعد بھی محمد عبداللہ اور دیگر دو مسلمان نوجوانوں کی کسی نے مدد نہیں کی۔ پچھلے دنوں کلکتہ کی معزز سٹی سیشن عدالت نے معقول ثبوت پولس کے ذریعہ ان کے خلاف نہی جٹا پانے کے نتیجہ میں آٹھ سال جیل کی آفتیں برداشت کرنے والے محمد عبداللہ اور اسکے دو ساتھیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا معزز سٹی سیشن عدالت نے پولس کے ساتھ ساتھ خفیہ ایجنسیوں کو ہوش سے کام لینے کی تلقین کی اس علاوہ دہلی کے قومی انسانی حقوق کمیشن نے ایک نو جوان محمد عامر کو لگاتار چودہ سال دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں جیل میں بند رکھنے پر سرکار کونوٹس جاری کئے ہیں کمیشن نے سرکار سے پوچھا ہے کہ محمد عامر کو چودہ سال جیل میں کس ثبوت کے تحت بند رکھا گیا۔ خوفیا ایجنسیوں نے محمد عامرکو ۱۳؍۲؍۱۹۹۸ کو اپنی بہن کی شادی میں شامل ہوکر پاکستان سے واپس ملک آنے پر نا جانے کس سازش کے تحت عامرکو ملک سے غداری کرنے اور دہلی، روہتک، سونی پت اور غازی آباد میں ر ۱۹۹۶ ء دسمبر اور اکتوبر ۱۹۹۷ کے دوران مندرجہ بالہ شہروں کے مختلف علاقوں میں بم بلاسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کر جیل بھیج دیا تھا دہلی کے پولس کمیشنر نے اپنی لمبی جوڑی رپورٹ میں فرضی ثبوتوں کے چلتے محمد عامر کو بم بلاسٹ کا ملزم قرار دیتے ہوئے سنگین دفعات میں جیل بھیج دیا تھا۔ چودہ (۱۴) سال تک محمد عامر بھی جیل میں رہا محمد عامر کو جب گرفتار کیا تب ۲۷؍۲؍۱۹۹۸ ء کا دن تھا۔ اور اس کی عمر اس وقت ۱۸ سال تھی عدالت نے محمد عامر کے خلاف جٹائے گئے تمام ثبوتوں کو سرے سے خارج کرتے ہوئے محمد عامر کو بے قصور ثابت کر دیا اور محمد عامر کی فوری رہائی کا حکم دیا معزز عدالت نے اس معاملے میں بھی محمد عامر کو بلا وجہ چودہ سال خفیہ ایجنسیزکی شہ پر پولس کے ذریعہ جیل میں قید رکھنے پر سبھی خفیہ ایجنسیز اور پولس کو لتاڑ لگائی اسی مدت یعنی چودہ سال کے لمبے وقفہ میں محمد عامر کے والد صدمہ سے تڑپ تڑپ کر دنیا چھوڑ گئے وہی انکی والدہ بھی فالج کے زبردست حملے کے نتیجہ میں دنیا سے رخصت ہو گئی ! اسی طرح کے سیکڑوں معاملات گزشتہ ۲۵ سالوں سے مرکزی سرکار اور صوبائی سرکاروں کی تعصبانہ اور جانبدارانہ حکمت عملی کے نتیجہ میں اکثرنظر آ رہے ہیں خد کو سیکولر کہلانے والی مرکزی اور صوبائی حکومتیں بلا وجہ مسلمانوں کو چودہ سال ، آٹھ سال اور چھ سال جیل میں رکھے جانے کے شرم ناک معاملات میں خاموش تماشائی بنی ہے بس یہی معاملات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مسلم اقوام کو پست اور کمزور کرنے کے غرض سے ان پر سلسلہ وار جبر اور ستم ایک سازش کاہی حصہ ہے جب کی پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی اس شرم ناک اور متعصبانہ حرکات کے نتیجے میں دوسرے ممالک میں بھی مسلمانوں کی تصویر کو دہشت گردی کے معاملات سے جوڑکر دیکھا جا رہا ہے !