بھاجپا قائدین اور بھیم آرمی کے سیاسی کھیل کا نتیجہ سرکار اور انتظامیہ کی سخت اور پختہ حکمت عملی کے بعد بھی تناؤ برقرار!
سہارنپور ( آمنا سامنا میڈیا نامہ نگار خاص جائزہ احمد رضا) لگاتار ۵۷ دن کی پریشانی اور تناؤ سے جوجھ رہے ضلع میں ہر طبقہ کے عوام نے کمشنری میں ہر صورت امن وامان کے قیام میں جہاں ضلع کی سرکاری مشینری کو بھر پور تعاون دے رکھا ہے وہیں ہر سینئر افسر اپنے اپنے علاقہ کی نظم ونسق پر مبنی پروگریس رپورٹ ہر لمحہ ضلع ہیڈ کواٹر بھیجتے ہوئے اپنے لئے نئی نئی ہدایت حاصل کر رہاہے ضلع ہیڈ کواٹر بھی لگاتار ریاستی وزیر اعلیٰ کے آفس سے جڑا ہوا ہے یوگی سرکار سے یہ اشارے ملنے لگے ہیں کہ بد امنی پھیلانے والے عناصر کی سرکوبی اور لا قانونیت کے خاتمہ کیلئے سرکار کسی بھی طرح کا ایکشن لینے سے گریز نہی کریگی چیف منسٹر کے نئے احکامات کے مطابق بد نظمی پھیلانے والا کوئی بھی ہو کسی بھی پہنچ کا ہو کسی بھی شکل میں بخشانہی جانا چاہئے مگر اسکے بعد بھی کل(آج) بھیم آرمی سربراہ کی ماں کملیش دیوی نے اپنے بیٹے چندر شیکھر کی بلا شرط رہائی کے لئے ۱۸ جون کو صبح جنتر منتر ( دہلی) میں بڑے مظاہرے کا اعلان کر کے کمشنری انتظامیہ کو نئی الجھن میں ڈال دیاہے یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بھیم آرمی چیف چندر شیکھر کی گرفتاری کو لیکر ابھی تک دلت فرقہ کی ہزاروں خواتین ضلع کی تین تحصیلوں میں زبردست مظاہرے کر چکی ہیں اور اب یہی مرد وخواتین انتظامیہ کے لاکھ بندوبست کے باوجوڈ دہلی مظاہرے کو کامیاب بنانے کیلئے یہاں سے کوچ کی فراق میں لگے ہیں انتظامیہ اور پولیس روکنے کی تمام تر تدابیر کے بعد بھی دلتوں کو دہلی جانے سے روکنے میں شاید ابھی تک ناکام ہے کل کا اگر یہ مظاہرہ کامیاب ہو جاتاہے تو پھر ضلع میں ایک نیا سیاسی محاذ سرکار کو لگاتار تنگ اور پریشان کرنیکے لئے مضبوط حیثیت سے ابھر آئیگا اور دلت سیاست بھاجپائی سیاست پر بھاری پڑجائیگی یہی سوچ کر بھاجپائی سخت الجھن سے گھرے ہیں مگر اپنی انا کی خاطر میل و محبت سے معاملہ کو رفع دفع کر نا نہی چاہ رہے ہیں اور آج یہی وجہ ہے کہ ۵۷ دن بعد بھی ضلع کا ماحول تناؤ سے دوچار ہے ہر سو فورسیز کے بوٹوں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے جگہ جگہ فلیگ مارچ اور پولیس کی سائرن بجاتی گاڑیاں دوڑ تی پھر رہی ہیں مگر پورا معاملہ اور تنازعہ سیاسی ہونے کے سبب نپٹنے میں ہی نہی آرہاہے جس وجہ سے امن پسند عوام اپنے تیوہار کو لیکر الجھن کا شکار بناہے؟
چونکا دینے والی بات یہ بھی ہیکہ پچھلے دنوں مرکز کی مانگ پر ہماری یوپی سرکار اور ہمارے گورنر یوپی رام نائک نے بھی کمشنری کے ان چاروں فسادات اور سیاسی تکرار سے وابسطہ اپنی ایک تفصیلی پختہ رپورٹ ہمارے ریاستی گورنر اور ریاستی ہوم سیکریٹری نے علیحدہ علیحدہ انداز سے مرکزی وزارت داخلہ کو بھیج بھی دی ہے تاکہ آگے کی کاروائی عمل میں لائی جاسکے مرکز کو بھیجی گئی اہم رپورٹ میں پر تشدد واقعات میں چار سیاسی لیڈران اور تین افسران کے کردار کوبھی مشکوک ماناگیاہے لیکن کسی کو بھی ابھی گرفتار نہی کیا گیا سرکار کے کہنے اور کرنے میں فرق نظر آتا دیکھ رہاہے اسی لئے مخالف جماعتیں اب کھل کر اس کاروائی کی مخالفت پر آمادہ ہیں یاد رہے کہ ریاست کے موجودہ حالات کے پیش نظر اور مخالفین سیاسی جماعتوں کی جانب سے لگاتار یوگی سرکار کی سخت مخالفت کو دیکھتے ہوئے ڈی جی پی اور چیف سیکریٹری نے تمام اضلاع کے سینئر حکام کو چوکننا رہکر کام کرنیکو کہا ہے اب لگنے لگاہے کہ قصوروار غیر سماجی عناصر، دلت کارکنا اور قصوروار کچھ بھاجپائیوں کے خلاف بھی ایکشن شروع کیا جا ئیگا مگر ایک ہفتہ بعد بھی اس پر جو سہی عملی اقدام اٹھاناتھا وہ قدم ابھی عمل میں نہی آپارہاہے جس وجہ سے دلت فرقہ اور بھاجپائی اپنی اپنی زور آزمائش میں سرگرم ہیں دلت بھاجپا ایم پی راگھو لکھن پال شرما اور انکے بھائی کی گرفتاری چاہتے ہیں جبکہ بھاجپائی اپنے سیاسی دشمنوں کو جیل بھجوانا چاہتے ہیں اور ضلع ۶۷ دن سے اسی سیاسی رسہ کشی کا شکار ہے ایماندار انتظامیہ اور پولیس چاہتے ہوئے بھی سخت ایکشن نہی لے پارہی ہے !
یہ بھی سچ ہے کہ شبیر پور دودھلی فساد کے معاملے میں بھاجپا اور بی ایس پی ایک دوسرے کو پست کرنیکے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں بسپا کے کارکنا ن جگہ جگہ آجبھی مظاہرہ کے دوران یہ مانگ اٹھا رہے ہیں کہ انتظامیہ ملزم بھاجپا لیڈران اور انکے ایم پی کو گرفتار کرنے سے کترا رہی ہے جبکہ دلتوں اور مسلمانوں کو ظلم وستم کا شکار بنایا جارہاہے بسپاکے سینئر قائد شاذان مسعود اور جگپال سنگھ کا سیدھا کہناہے کہ لکھنؤ کے اشارے پر دلتوں اور مسلمانوں کا استحصال کیا جارہاہے جبکہ اصل ملزم بھاجپا ئی ہیں انکو چھوٹ دے رکھی ہے نسلی فساد کے آج ۵۷دن بیت چکے ہیں مگر ضلع میں ابھی بھی نظم ونسق اور امن کے قیام کیلئے سینئر افسران کو سخت الجھنوں کا سامناہ کر نا پڑ رہا ہے جبکہ حالات کی نزاکت کے مد نظر ہمارے ریاستی وزیر اعلیٰ نے حالات کے مدنظر ہی اے ڈی جی نظم ونسق آدتیہ مشرا اور اے ڈی جی این سی آر آنند کمار کو ضلع کی نگرانی پر مامور کر رکھاہے وہ بھی اپنے بیان میں یہاں کے حالات تناؤ سے بھرے بتاکر واپس لکھنؤ چلے گئے ہیں پولیس کو سختی کے احکامات دے گئے ہیں مگر تعجب کی بات ہے کہ اتنا سبھی کچھ کئے جانیکے بعد بھی نسلی اور مذہبی جنوں سر چڑھ کر بول رہاہے عام آدمی اس طرح کے غیر اطمینان بخش حالات دیکھ کر اپنے کو یہاں غیر محفوظ محسوس کرنیکو مجبور ہے!ان سبھی باتوں کے علاوہ گاؤں، قصبہ اور تحصیل کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے آدمی سے ملکر دونوں سینئر افسران ضلع مجسٹریٹ پرمود کمار پانڈے اور پولیس سربراہ ببلو کمار کے ہمراہ لگاتار عوامی پنچایتوں کا انعقاد کر نے کے بعد ضلع کے امن ونظم کو واپس لانے کی بھر پور کوششیں کر رہے ہیں مگر وقت وقت پر مٹھی بھر لوگ ایسے حالات پید کر دیتے ہیں کہ جس وجہ سے امن کی بحالی میں بڑ ا رخنہ پید ہو جاتاہے ! پچھلی ۲۴ مئی کو نقاب پوش موٹر سائیکل سوار دو مسلح افراد نے جس دکاندار پردیپ چوہان کو مقامی جنتاروڈ پر گولی مارکر مجروح کردیاتھا کل دیر رات چندیگڑھ وقع پی جی آئی میڈیکل سینٹر میں اسکی موت واقع ہوگئی معالجوں نے بعد پوسٹ مارٹم اسکی لاش اہل خانہ کے سپرد کردی پردیپ چوہان کی موت کی خبرسے پھر سے ضلع بھر میں نسلی فساد پھوٹنے کا خد شہ لاحق ہوگیا جگہ جگہ ٹھاکر برادری کی خواتین، مرد اور بچوں نے راستہ روک کر ہنگامہ شروع کردئے انتظامیہ اور پولیس افسران کے ہاتھ پاؤں پھول گئے چپہ چپہ پر پولیس لگادیگئی ضلع کی چاروں سرحدوں کو بھی سیل کرا دیاگیا اور چندیگڑھ سے جیے ہی ایمبولینس پردیب کی لاش لے کر شہری حدود میں داخل ہوئی تبھی سرکل آفیسر پولیس مع بھاری فورس ایمبولینس کے ساتھ ساتھ ہولئے دسکلومیٹر آنے کے بعد جگہ جگہ مظاہرین لاش کو گاڑی سے نکال کر مظاہرے کرنیکی زد کرنے لگے مگر افسران گاڑی کو لگاتار آگے دھکیل رہے سٹی کے بیچ گھنٹہ گھر پہنچ کر خواتین نیلاش کو گاڑی سے کھینچ کر سڑک پر رکھنے کی بھر پور کوشش کی مگر موقع پر موجود ایس پی نے بھاری حفاظتی بندوبست کے بیچ ایمبولینس کو مقتول کے گاؤںآسنوالی کی جانب روانہ کیا اس بیچ پولیس ملازمین کے ساتھ اور سینئر افسران کے ساتھ زبردست گالیگلوچ اور دھکامکی ہوئی مگر پولیس نے صبر سے کام لیا اور گاڑی کو آگے بڑھادیا اسی درمیان جوشیلے نوجوانوں نے جہاں پولیس سے ہاتھا پائی کی وہیں مقتول کی لاش نیچے نہی اتارنے پر ایمبولینس کے ڈرائیور اور ہیلپر کو بری طرح سے مارا پٹا مگر اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی مظاہرین کو دھکیل کر گاڑی کو گاؤں آسن والی لیجایا گیا یہاں موجود کلکٹر اور ایس ایس پی نے بھاری فورس کی موجودگی میں پردیپ چوہان کا انتم سبسکار کرایا اور مظاہرین کو بہ مشکل قابو کیا نتیجہ کے طور پر کل اور آج پھر سے ضلع کو نسلی فساد میں جھونکنے کی سازش سینئر افسران کی مستعدی سے قطعی طور پر ناکام بنادی گئی ! ضلع کے مختلف مقامات پر ۵۵ دن کی مدت میں رونما ہونے والی چار پر تشدد و ارداتوں نے یوپی کی یوگی سرکار کو بدنام کرکے رکھ دیاہے آپکو بتادیں کہ سہارنپور میں سب سے پہلا فساد بھاجپاکے مقامی ایم پی راگھو لکھن پال شرماکے کارکنان کی زور زبردستی کاہی نتیجہ تھا چینلوں کی خبروں میں سہارنپور کے فساد کی خبر کو چینلوں نے بھاجپائیوں اور بھاجپا ایم پی کے حق میں ہی بڑھا چڑھاکر پیش کیا جس وجہ سے چند دنگائی بھاجپائیوں نے آگے بڑھتے ہوئے ایس ایس پی لوکمار کا بنگلہ گھیر لیا اور وہاں بھی گالی گلوچ، توڑ پھوڑ، مارپیٹ اورنازیبا حرکات کو انجام دیا جس وجہ سے حالات بے ترتیبی میں الجھ گئے بھاجپائی اقتدار کے نشہ میں نظم ونسق کو بھلا بیٹھے اسی کا ری ایکشن یہ ہوا کہ بھیم آرمی دلتوں کے حق کیلئے سامنے آگئے افسران بھاجپائیوں کے دباؤ میں آگئے!