تہران،16جون :ایران میں سات جون کو ہونے والے دو بم دھماکوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تو ایران کی ریاستی مشینری ایک بار پھر اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کے خلاف حرکت میں آ گئی ہے۔ ایران نے سات جون کے بعد ملک بھر میں اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کے خلاف خوفناک کریک ڈاؤن شروع کیا ہے اور اب تک دسیوں افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ اگرچہ بہ ظاہر ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ داعش کے مشتبہ حامیوں کو پکڑ رہا ہے مگر داعش ایک بہانہ ہے۔ ایران داعش کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کے خلاف ایک نئی جنگ مسلط کر رہا ہے۔حالیہ ایام میں ایرانی پولیس نے سنی اکثریتی صوبوں بالخصوص کردستان اور بلوچستان میں اہل سنت مسلک کے شہریوں کی اندھا دھند گرفتاریاں شروع کی ہیں۔
ایرانی خبر رساں ادارہ یا یرنا نے انٹیلی جنس وزیر محمود علوی کا ایک بیان نقل کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بدھ کے روز جنوب مشرقی صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر چاہ بہار میں داعش کے ایک گروپ کے ساتھ جھڑپ میں ایک سیکیورٹی اہلکار اور دو شدت پسند ہلاک ہوئے جب کہ پانچ کو حراست میں لیا گیا ہے۔محمود علوی نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں کارروائی کے دوران پکڑے جانے والے مشتبہ شدت پسندوں میں ایک تیونسی باشندہ بھی شامل ہے۔ وہ ایران میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے داعش کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ اس کے کئی دوسرے ساتھیوں کو بھی حراست میں لینے کے بعد تہران میں قائم ایفین نامی جیل منتقل کردیا گیا ہے۔ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق 7جون کے بعد سے جاری کریک ڈاؤن میں 80مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایرانی پولیس اور سیکیورٹی حکام کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کی گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گرفتار تمام افراد کو اجتماعی پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے۔