لازمی شادی رجسٹریشن کی حمایت ، عجلت پر مبنی قدم: مولانا عبدالحمید نعمانی

نئی دہلی،15جون
آل انڈیا یونائٹیڈ مورچہ کے جنرل سکریٹری مولانا عبدالحمید نعمانی نے یوپی میں لازمی شادی رجسٹریشن کی حمایت وتائیدکوعجلت پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے پہلے متعلق وسیع پیمانے پر صلاح مشورہ ہونا چاہیے، یقینی طور سے شادی رجسٹریشن کے متعلق سپریم کورٹ کی ہدایت ہے، لیکن اس کے متعلق دفعات اور نوعیت کے معاملے واضح نہیں ہیں، انہوں نے کہاکہ اب تک قابل ذکر مسلم تنظیموں کی طرف سے کئی دہائیوں سے لازمی شادی رجسٹریشن کی مخالفت کی جاتی رہی ہے اس لیے پوری طرح بات سامنے آئے بغیر سردست اس کی حمایت، ماضی کے موقف سے انحراف ہوگا۔ مولانا عبدالحمید نعمانی نے کہاکہ مرد، عورت کا شوہر بیوی کے طور پر سرکاری ریکارڈ میں محض درج ہونا بذات غلط نہیں ہے، اگر مذہبی اور سماجی طور سے کی گئی شادی کو غیرقانونی اور کالعدم قرار نہیں دیا جاتا ہے تو زیادہ وقت کی بات نہیں ہے، تاہم شادی بیاہ جیسے معاملات میں سرکاری مداخلت سے مشکلیں پیدا ہوں گی، سرکاری عملے کی کمائی اور لین دین کا ایک اور راستہ کھل جائے گا، اس پر سرکار کیسے قدغن لگائے گی، یہ ایک بڑا سوال ہے، لازمی شادی رجسٹریشن کا دائرہ محض مرد، عورت کی شادی، سرکاری ریکارڈ میں درج کرانے تک محدود نہیںہوں گے، جیسی کہ اطلاعات ہیں کہ لازمی رجسٹریشن کے ذریعہ سے زبانی طلاق کو کالعدم قرار دینے کی بھی کوشش ہوگی، مسلم سماج میں شادی اور اس کے متعلقات درج کیے جاتے ہیں،گواہ بھی ہوتے ہیں،اسلامی شریعت میں صرف مرد، عورت کا اپنے طور پر خفیہ شادی ناجائز ہے، ایسی صورت میں شوہر، بیوی کو لے کر کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے، ان میں سے کوئی بیوی، شوہر کی حیثیت سے انکار نہیں کرتا ہے، مختلف سرکاروں اداروں میں نکاح نامے کو تسلیم بھی کیا جاتا رہاہے، انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ تین طلاق کے مسئلے کی طرح لازمی شادی رجسٹریشن کے معاملے کا بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے، اگر رجسٹریشن نہ کرانے کی صورت میں سرکاری سہولیات سے محروم رکھا جائے تو یہ الگ نوعیت کا معاملہ ہوگا، لیکن اسے جرم قرار دیتے ہوئے جرمانہ وصولنے کی بات پر شہریوں کے مذہبی معاملے میں مداخلت اور آزادی کو لے کر سوالات یقیناًپیدا ہوں گے۔مولانا نعمانی نے کہاکہ سردست لازمی شادی رجسٹریشن،کئی طرح کے سوالات کے گھیرے میں ہے، اس لیے اس کی حمایت اور خیرمقدم کرنا جلدی بازی ہوگی، انہوں نے تمام تنظیموں کو متوجہ کیا ہے کہ متعلقہ امور کے ماہرین سے تبادلہ خیالات کے بعد کوئی متحدہ موقف سماج کے سامنے رکھیں، تاکہ عوام تذبذب کی کیفیت سے باہر آسکیں۔