مضمون نگار :مولانا محمود دریا بادی ، ممبئی
آجکل قطر ودیگر عرب ممالک کے تنازعہ پر مستقل لکھا جارہا ہے…….الگ الگ تجزیئے.الگ الگ بیانات. الگ الگ نظریات اس سلسلے میں نظر سے گذر رہے ہیں..بعض کے مطابق یہ سب امریکہ کا کیادھرا ہے..بعض کہتے ہیں اس کے پیچھے ایران دشمنی کارفرما ہے…کسی حد تک یہ دونوں باتیں درست ہو سکتی ہیں.مگر ان کے علاوہ کچھ دیگر عوامل بھی قطر کو ..ٹاٹ باہر..کرنے پیچھے ہوسکتے ہیں.ان پر بھی نظر رکھنی چاہیئے….
1) اگر صرف امریکہ کے اشارے پر یہ بائیکاٹ ہوا ہوتا تو سب سے زیادہ تعجب اس پر ہوناچاہیئے کہ خود امریکہ نے قطر کا بائیکاٹ نہیں کیا.آج بھی امریکی سفارت خانہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کام کررہا پے.نیز آج کی تاریخ تک کسی امریکی ذمہ دار کا ایسا کوئی بیان بھی نہیں آیا جس میں قطر سے سفارتی تعلق ختم کرنے کی بات کی گئی ہو….. یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیئے کہ خلیج میں قطر خود امریکہ کا بہت بڑا حلیف رہاہے اوراب بھی ہے..امریکی فوجی اڈہ اب بھی وہاں قائم ہے….یہ کیسا طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف تو امریکہ عرب ممالک کو قطر سے سارے تعلقات منقطع کرنے پر مجبور کرے اور خود اپنے تمام مراسم حسب سابق بحال رکھے اور عرب ممالک اس پر کوئی اعتراض بھی نہ کریں… یہ لاکھ ڈالر کاسوال ہے….
2) دوسری وجہ قطر کی ایران سے دوستی ہوسکتی ہے..مگر کیا صرف ایران سے قطر ہی کی دوستی ہے…وہ سارے ممالک جنھوں نے قطر کا مقاطعہ کیا ہے ان سب کے ایران سے سفارتی تعلقات آج بھی قائم ہیں.امارات کی سب سے زیادہ تجارت ایران سے ہوتی ہے….خود امریکی سفارت خانہ بھی تہران میں کام کررہاہے.ایران اور امریکہ کے درمیاں پچھلے سالوں میں جو نورا کشتی دیکھنے کو ملتی تھی اب وہ بھی ختم ہوتی جارہی ہے….
پھر سعودی ودیگر عرب حکومتوں کو آخر کون سی مجبوری آپڑی جو اپنے ایک بھائی کو.. برادری سے نکالنے کا سخت فیصلہ کرنا پڑا……
ہمارے خیال سے وہ مجبوری یہ ہوسکتی ہے ….
سب جانتے ہیں کہ خلیجی ممالک میں مطلق العنان ایسی بادشاہتیں قائم ہیں جنھیں ان کی بداعتدالیوں.عیاشیوں اور یورپ وامریکہ کی کاسہ لیسی کی وجہ سے وہاں کے عام لوگ بالکل پسند نہیں کرتے…ان تمام ملکوں میں حکومت کی ادنی مخالفت کی سزاحبس دوام یا موت بھی ہوسکتی ہے. وہاں کےبعض بڑے بڑے علما ودانشواران آج تک لاپتہ ہیں..ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انھوں تخت شاہی کے کچھ احمقانہ فیصلوں پر عوام میں تنقید کی تھی…یاد ہوگا مسجد نبوی کے بزرگ خطیب شیخ حذیفی بھی عرصہ تک غائب رہ چکے ہیں….
ایسے میں یہ جبرا مسلط ہوجانے والے حکمراں یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے یہاں حماس یا اخوان جیسی عوامی تحریکیں جگہ بنا سکیں.
یوں تو داعش اور القاعدہ جیسی کچھ پراسرارتحریکیں عرب ممالک میں موجود رہی ہیں.مگر ان دونوں تحریکوں کا عرب عوام پر کوئی اثر نہیں تھا.ان دونوں کی کچھ عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے افغانستان سے بغداد وشام تک آبیاری کی اور استعمال کرکے پھینک دیا.آج یہ دونوں تنظیمیں اپنے وجود کے آخری مراحل میں ہیں…..عرب عوام کا ان دونوں سے اب بھی کوئی لینا دینا نہیں…..
لیکن اخوان اور حماس عوامی تنظیمیں ہیں….صرف فلسطین و مصر ہی نہیں پورے عرب میں ان کی عوامی پکڑ ہے.اسی لئے ارباب اقتدار کی ہزار کوششوں اور ظلم وجبر کی آخری حد سےگذر جانے کے بعد بھی ان کی عوامی حمائت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے….بلکہ پورے خطے کے لوگوں میں ان کے لئے ہمدردانہ جذبات بڑھ رہے ہیں….
اب عرب کے تمام جبری بادشاہوں کو بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ اگر ان طوفانی تنظیموں پر قدغن نہیں لگائی گئی تو ہمارا اقتدار یہ عیش وعشرت یہ تام جھام سب چھن سکتا ہے…..
اتفاق سے قطر میں علامہ قرضاوی جیسے انقلابی علما بھی ہیں جن کی کوششوں سے یہ عوامی تحریکات لوگوں کے دلوں میں مزید جگہ بناتی جارہی ہیں…اسی لئے ان حکومتوں نے شیخ قرضاوی وغیرہ کو بھی دہشت گرد قرار دینے پر اصرار کیاہے….
دوسری وجہ قطر کے بائیکاٹ کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عرب ممالک میں آزاد میڈیا کا کوئی تصور نہیں ہے.وہاں کا سرکاری میڈیا عوامی مسائل کے بجائے صرف اپنے حکمرانوں کی خبریں ہی نشر کرتا ہے.حکومت کی تمام غلط پالیسیوں اور ناکامیوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا……..ایسے میں قطر کے اندر ..الجزیرہ.. جیسے آزاد میڈیا ہاوس کا ابھرنا اور اس کا پورے خطہ عرب میں مقبول ہوجانا.حکومتی دباو سے آزاد خبریں.تجزئیے اور رپورٹیں اس پورے علاقے میں زبردست سیاسی بیداری پیدا کر رہی ہیں…..
ظاہر ہے عرب شیوخ یہ کیوں چاہیں گے کہ ان کے عوام میں اپنے حقوق کے لئے بیداری آئے…..
اس لئے ہمارے خیال میں یہ مقاطعہ دباو بنانے کی سیاست ہے……بس اگلے چند دنوں کے اندر دیکھ لیجئے گا سمجھوتہ ہوجائے گا…بظاہر سمجھوتے کی دفعات جو بھی رہیں لیکن اندرون خانہ دو باتیں ضرور طے ہو جائیں گی…
1) قطر کو مجبور کیا جائے گا کہ الجزیرہ پر کنٹرول کرے اور شاہان عرب کی.. بے لگام ملوکیت.. کے خلاف خبریں تبصرے اور تجزیئے قطعا نشر نہ کرے….
2) علامہ قرضاوی جیسی انقلابی شخصیات پر پابندی لگائی جائے یا انھیں ملک بدر کیا جائے….
اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ قطر کتنا دباو قبول کرتا ہے…. فی الحال ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے