سہارنپور آمنا سامنا میڈیا ( خاص رپورٹ احمد رضا) اسمیں کوئی دورائے نہی کہ مرکز میں جب سے نر یندر مودی کی زیر سرپرستی این ڈی اے سرکار وجود میں آئی ہے تبھی سے ملک کے بیشتر علاقوں میں اعلیٰ ذات اور دلت برادریوں کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم کے مابین بیہودہ تنازعات، معمولی سی بات پر ٹکراؤ جیسے دومنٹ کی آذان کی آواز، مسجد تعمیر کی معمولی تعمیر اور مسجد کے ٹوٹے ٹن شیڈ کو لگانے کے نام پر منظم ہنگامہ ، گؤ رکشا کے نام پر بھی ایک خاص فرقہ کے افراد پر لگاتا الزام تراشی اورظلم وجبر کی افسوسناک وارداتیں تیزی سے بڑھی ہیں تین سال کی مدت میں ہریانہ ، پنجاب، مغربی یوپی اور دہلی باؤڈر کے آسپاس سیکڑوں ہند مسلم ٹکرا ؤ کے علاوہ گؤ سرکشا کے نام پر بھی سیکڑوں پر تشدد واقعات سامنے آچکے ہیں مقابل ذکر بات تو یہ ہے کہ آج تک بھی مندرجہ بالا تمام د پر تشدد وارداتوں کی سہی رپورٹ او ر ان وارداتوں کے اصل اور کلیدی ملزمان سامنے نہی آپائے اور جو افراد موقع سے گرفتار کئے گئے انکے خلاف بھی ایکشن لئے جانیکی پولیس اور انتظامیہ نے ہمت تک نہی دکھائی انہی وارداتوں نے ملک خاص طور سے ہریانہ ،پنجاب اور یوپی باؤڈر سے لگے چار پانچ اضلاع میں مذہبی نفرت کے علاوہ نسلی نفرت کوبھی ابھار دیاہے جسکے نتائج سبھی کے سامنے ہیں کہ ہندوستان کے نقشہ پر کبھی نظر نہی آنے والے شبیر پور ، دودھلی اور آسنوالی گاؤں آج ملک بھر کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات کی سرخیاں بنے ہیں دکھہ یہ ہے کہ آپسی بھائی چارہ نہی بلکہ پرتشدد اور زہریلی سوچ کے نتیجہ مغربی یوپی کے دودھلی گاؤں، شبیرپور گاؤں، مرزاپور ، جنتاروڈ، رام پور منیہاران ، رام نگر ، مانک مؤ، دیوبند ، ناگل ، سرساوہ اور شہر سہارنپور کی نسلی ٹکراؤ کے ساتھ ساتھ ہندومسلم کے نام پر رونما ہونے والی چھہ سے زائد پر تشدد وارداتوں نے ملک کی نظام کو چیلنج کر کے رکھ دیاہے؟ پوری ریاست اور ریاست کے سربراہاں بھی ۵۵ دن گزرجانیکے بعد بھی امن کیلئے لگائی جارہی امیدوں سے کسی بھی صورت مطمئن نظر نہی آرہے ہیں مندرجہ بالا وارداتوں کی ریاستی سطح پر سرکار کی ہونے والی بد نامی سے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے سخت موقف اپنائے جانے کے نتیجہ میں گزشتہ ہفتہ سرکارنے نئی ہدایت جاری کر دی ہیں ان اہم ہدایت کے بعد اب جگہ جگہ اسپیشل فورسیز کو تعینات کیا گیاہے کچھ اہم اور حساس علاقوں میں فورسیز کا مارچ بھی لگاتارجاری ہے ، خفیہ اہلکاروں کی بھی بڑے پیمانہ پر ضلع بھر کے چار سو گاؤں میں تعیناتی کی گئی ہے افسران موقع پر موجود رہکر امن و نظم کے قیام میں سرکاری مشینری کو بھر پور تعاون کر رہے ہیں پولیس اور مقامی انتظامیہ کاہر سینئر افسر اپنے اپنے علاقہ کی نظم ونسق پر مبنی خفیہ رپورٹ ہر دن ہیڈ کواٹر کو پیش کرنیکے ساتھ ریاستی وزیر اعلیٰ کے آفس کو بھی ارسال کرنے میں سرگرم ہیں یوگی سرکار سے یہ اشارے ملنے لگے ہیں کہ بد امنی پھیلانے والے عناصر کی سرکوبی اور لا قانونیت کے خاتمہ کیلئے سرکار کسی بھی طرح کا ایکشن لینے سے گریز نہی کریگی نئے احکامات کے مطابق بد نظمی پھیلانے والا کسی بھی شکل میں بخشانہی جائیگا وزیر اعلیٰ کے اس قدم کو اطمینان بخش قرار دیا جارہا ہے امید ہے کہ اب ضلع میں امن وامان قائم رہیگا اور شرارتی عناصر جیل میں جائیں گے نئی ہدایت کے بعد اب جگہ جگہ فورسیز کا مارچ جاری ہے ، خفیہ دستے بھی تعینات رہکر امن وامان کے قیام میں سرکاری مشینری کو بھر پور تعاون کر رہے ہیں ہر سینئر افسر اپنے اپنے علاقہ کی نظم ونسق پر مبنی پروگریس رپورٹ ہر دن ہیڈ کواٹر بھیج کر ریاستی وزیر اعلیٰ کے آفس سے جڑا ہوا ہے یوگی سرکار سے یہ اشارے ملنے لگے ہیں کہ بد امنی پھیلانے والے عناصر کی سرکوبی اور لا قانونیت کے خاتمہ کیلئے سرکار کسی بھی طرح کا ایکشن لینے سے گریز نہی کریگی ، ساتھ ہی ساتھ مذہبی تکرار کو بڑھاوا دینے والوں کے لئے اس سرکار میں کوئی جگہ ہی نہی ہے یہ ملک سبھی کاہے سبھی کے لئے قانون برابر ہے۔
قابل ذکر ہیکہ پچھلی واردات کے دوران ایک دکاندار پردیپ چوہان کو مقامی جنتاروڈ پر گولی مارکر مجروح کردیاتھا کل دیر رات چندیگڑھہ واقع میڈیکل سینٹر میں اسکی موت واقع ہوگئی یہ خبر ملتے ہی ضلع انتظامیہ نے نظم ونسق کو قائم رکھنے کی نیت سے ضلع بھر میں بھاری حفاظتی بندوبست کر ئے گئے مگر سبھی تدابیر کئے جانیکے بعد بھی پردیپ چوہان کی موت کی خبرسے پھر سے ضلع بھر میں نسلی فساد پھوٹنے کا خد شہ لاحق ہوگیا جگہ جگہ ٹھاکر برادری کی خواتین، مرد اور بچوں نے راستہ روک کر ہنگامہ شروع کردئے انتظامیہ اور پولیس افسران کے ہاتھ پاؤں پھول گئے چپہ چپہ پر پولیس لگادیگئی ضلع کی چاروں سرحدوں کو بھی سیل کرا دیاگیا اور چندیگڑھ سے جیے ہی ایمبولینس پردیب کی لاش لے کر شہری حدود میں داخل ہوئی تبھی سرکل آفیسر پولیس مع بھاری فورس ایمبولینس کے ساتھ ساتھ ہولئے دسکلومیٹر آنے کے بعد جگہ جگہ مظاہرین لاش کو گاڑی سے نکال کر مظاہرے کرنیکی زد کرنے لگے مگر افسران گاڑی کو لگاتار آگے دھکیل رہے سٹی کے بیچ گھنٹہ گھر پہنچ کر خواتین نیلاش کو گاڑی سے کھینچ کر سڑک پر رکھنے کی بھر پور کوشش کی مگر موقع پر موجود ایس پی نے بھاری حفاظتی بندوبست کے بیچ ایمبولینس کو مقتول کے گاؤںآسنوالی کی جانب روانہ کیا اس بیچ پولیس ملازمین کے ساتھ اور سینئر افسران کے ساتھ زبردست گالیگلوچ اور دھکامکی ہوئی مگر پولیس نے صبر سے کام لیا اور گاڑی کو آگے بڑھادیا اسی درمیان جوشیلے نوجوانوں نے جہاں پولیس سے ہاتھا پائی کی وہیں مقتول کی لاش نیچے نہی اتارنے پر ایمبولینس کے ڈرائیور اور ہیلپر کو بری طرح سے مارا پٹا مگر اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی مظاہرین کو دھکیل کر گاڑی کو گاؤں آسن والی لیجایا گیا یہاں موجود کلکٹر اور ایس ایس پی نے بھاری فورس کی موجودگی میں پردیپ چوہان کا انتم سبسکار کرایا اور مظاہرین کو بہ مشکل قابو کیا نتیجہ کے طور پر کل اور آج پھر سے ضلع کو نسلی فساد میں جھونکنے کی سازش سینئر افسران کی مستعدی سے قطعی طور پر ناکام بنادی گئی ! نسلی فساد کے آج ۵۱دن بیت چکے ہیں مگر ضلع میں ابھی بھی نظم ونسق اور امن کے قیام کیلئے سینئر افسران کو سخت الجھنوں کا سامناہ کر نا پڑ رہا ہے جبکہ حالات کی نزاکت کے مد نظر ہمارے ریاستی وزیر اعلیٰ نے حالات کے مدنظر ہی اے ڈی جی نظم ونسق آدتیہ مشرا اور اے ڈی جی این سی آر آنند کمار کو ضلع کی نگرانی پر مامور کر رکھاہے گاؤں، قصبہ اور تحصیل کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے آدمی سے ملکر دونوں سینئر افسران ضلع مجسٹریٹ پرمود کمار پانڈے اور پولیس سربراہ ببلو کمار کے ہمراہ لگاتار عوامی پنچایتوں کا انعقاد کر نے کے بعد ضلع کے امن ونظم کو واپس لانے کی بھر پور کوششیں کر رہے ہیں مگر وقت وقت پر مٹھی بھر لوگ ایسے حالات پید کر دیتے ہیں کہ جس وجہ سے امن کی بحالی میں بڑ ا رخنہ پید ہو جاتاہے اسی الجھن کے باعث ضلع انتظامیہ کی جانب سے چار دن قبل سے ہی خاص ہدایتپر ضلع بھر کی انٹر نیٹ سروسیز کو مفلوج کردیاگیاہے جس کے نتیجہ میں پانچ لاکھ افراد متاثر ہورہے ہیں اس بارے میں انتظامیہ کا صاف کہناہے کہ جب امن ونسق بحال ہوگا تبھی نیٹ کھولنے پر غور کیا جائیگا ! ضلع کے مختلف مقامات پر ۱ ۵ دن کی مدت میں رونما ہونے والی چار پر تشدد و ارداتوں نے یوپی کی یوگی سرکار کو بدنام کرکے رکھ دیاہے آپکو بتادیں کہ سہارنپور میں سب سے پہلا فساد بھاجپاکے مقامی ایم پی راگھو لکھن پال شرماکے کارکنان کی زور زبردستی کاہی نتیجہ تھا چینلوں کی خبروں میں سہارنپور کے فساد کی خبر کو چینلوں نے بھاجپائیوں اور بھاجپا ایم پی کے حق میں ہی بڑھا چڑھاکر پیش کیا جس وجہ سے چند دنگائی بھاجپائیوں نے آگے بڑھتے ہوئے ایس ایس پی لوکمار کا بنگلہ گھیر لیا اور وہاں بھی گالی گلوچ، توڑ پھوڑ، مارپیٹ اورنازیبا حرکات کو انجام دیا جس وجہ سے حالات بے ترتیبی میں الجھ گئے بھاجپائی اقتدار کے نشہ میں نظم ونسق کو بھلا بیٹھے اسی کا ری ایکشن یہ ہوا کہ بھیم آرمی دلتوں کے حق کیلئے سامنے آگئے افسران بھاجپائیوں کے دباؤ میں آگئے اور حالات بگڑ گئے جہاں شفقت کمال اور منوج تیواری کو تبادلہ پر بھیجا گیا وہیں نئے کلکٹر ناگیندر پرساد اور نئے پولیس کپتان سبھاش چند دوبے کو نئی تریناتی کے پندرہ روز بعد ہی معطل کرنیکے پر سرکار نے واپس گھروں کو بھیج دیا انہی اسباب سے ضلع کا نظم ونسق بگڑتاگیا اور حالات یہاں تک آگئے کہ انتظامیہ اب سیاست دانوں کی بجائے از خد عام افراد سے مل کر حالات کو کنٹرول کرنے میں ایمانداری سے مشغول ہے جسکے بہتر نتائج بھی پچھلے پانچ دنوں سے سامنے آنے لگے ہیں۔ ضلع میں رونما ہوئے چاروں فسادات کی بابت گزشتہ روز ایک مفصل رپورٹ ہمارے ریاستی گورنر اور ریاستی ہوم سیکریٹری نے مرکزی وزارت داخلہ کو بھیج بھی دی ہے تاکہ آگے کی کاروائی عمل میں لائی جاسکے ریاستی سربراہ کی جانب سے مرکز کو بھیجی گئی اہم رپورٹ میں پر تشدد واقعات میں چار سیاسی لیڈران اور تین افسران کے کردار کوبھی مشکوک ماناگیاہے یاد رہے کہ ریاست کے موجودہ حالات کے پیش نظر اور مخالفین سیاسی جماعتوں کی جانب سے لگاتار یوگی سرکار کی سخت مخالفت کو دیکھتے ہوئے ڈی جی پی اور چیف سیکریٹری نے تمام اضلاع کے سینئر حکام کو چوکننا رہکر کام کرنیکو کہا ہے، مگر اتنا ہوجانیکے بعد اب قصوروار عناصر اور قصوروار کچھ بھاجپائیوں کے خلاف بھی ایکشن شروع کرادیا گیاہے