مضمون نگار: سید حسین شمسی
سابقہ سماجوادی حکومت پر غنڈوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرنے اور اس سے نجات دلاتے ہوئے اترپردیش کو "اُتم پردیش” بنانے کا دعویٰ کرنے والی یوگی سرکار اوّل دن سے لا اینڈ آرڈر سنبھالنے کے معاملے میں ناکام رہی ہے۔ سماج دشمن عناصر دندناتے پھر رہے ہیں، ان پر نکیل نہ کسی جانے کے سبب قتل، لوٹ، فسادات اور آبروریزی کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مرادآباد، سنبھل، میرٹھ، بلند شہر، متھرا اور سہارنپور کے حالات سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ عوام میں راہ چلتے لُٹ پِٹ جانے کا بڑھتاخوف، شاہراہوں پر خواتین کے زیورات اتروانے اور ان کے ساتھ بدتمیزی و آبروریزی کے پے درپے واقعات، گئو رکشا کے نام پر مسلم نوجوانوں کو درخت سے باندھ کر مارنا پیٹنا اور اب دلتوں کو تختۂ مشق بنانا کچھ اس طرح معمولات کا حصہ بنتے جارہے ہیں کہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور سوالات کئے جارہے ہیں کہ کیا یہی "اتم پردیش” کی جانب پیش قدمی ہے؟ 56 انچ سینہ، 56 انچ سینہ کانعرہ لگاکر سینہ ٹھونکنے اور خم ٹھونکنے والے اتنی جلدی ہمت کیسے ہار گئے؟ یوگی سرکار کے وزیر سریش کمار کھنہ کا یہ عذر پیش کرنا کہ نہ تو پولس ہر جگہ تعینات کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی حکومت سماج کے 100 فیصد تحفظ کو یقینی بنا سکتی ہے, بڑا ہی غیر ذمہ دارانہ اور مہمل لگتا ہے. مزید برآں اس وعدے سے مکرنا کہ "اتنی بڑی ریاست میں ہم نے زیرو کرائم کی بات کبھی نہیں کی” یہ بے بسی اور ناکامی کا مظہر نہیں تو کیا ہے؟ اتر پردیش میں لا اینڈ آرڈر پر قابو نہ پانے کا سبب آپ کی نظر میں اگر بڑی ریاست، اس کا طویل ترین رقبہ اور کثرت آبادی ہی ہے تو کیا یہ مشورہ قابلِ قبول نہیں کہ یوپی کو چھوٹی چھوٹی کئی ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے ، تاکہ نظم و نسق کو بہتر و آسان بنایا جاسکے اور عورتوں کی عزت وناموس کا تحفظ یقینی ہو.
دلتوں کی 146146سرکشی145145
مرادآباد، سنبھل ہو کہ سہارنپور، دونوں جگہ دلتوں کی برہمی کسی بڑے واقعہ کا بیش خیمہ لگتی ہے۔ اعلیٰ ذاتوں کے بڑھتے مظالم سے تنگ آکر ہندو دھرم چھوڑکر مسلم وبودھ مت اختیار کرنے کی بات کرنے والے ان دلتوں کے تیور بڑے سخت نظر آرہے ہیں۔ ہمیشہ دوسروں کے 146آلۂ کار145 اور 146ہتھیار145 بننے والے دلتوں کو دیوار سے کس قدر لگا دیا گیاہے کہ وہ خود ہتھیار اٹھانے یا سراپا ہتھیار بننےپر مجبور ہو گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت و انتظامیہ سنبھل میں دلتوں کی دل آزاری کا ردعمل دیکھ چکی تھی تو سہارنپور میں مقامی ایم پی کو شوبھا یاترا نکالنے کی ہمت کیونکر ہوئی۔ حالانکہ یہ ریلی بابا صاحب امبیڈکر کے جنم دن کی مناسبت سے نکالی گئی لیکن چونکہ ایک منظم سازش کے تحت یہ ریلی تاریخ ولادت کے ہفتہ, عشرہ گزرجانے کے بعد نکالی گئی اور وہ بھی مسلم علاقوں سے، سو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اس شوبھا یاترا کے پیچھے کیا ناپاک منصوبے ہیں. اگرچہ انتظامیہ نے چابکدستی دکھاتے ہوئےمسلم علاقوں میں اس ریلی پر کسی نہ کسی حد تک قابو پالیا اور فرقہ وارانہ آگ کو پھیلنے نہیں دیا لیکن یوگی ومودی صاحبان کو چاہئے تھا کہ سہارنپور کے ایم پی کو حد سے متجاوز نہ ہونے دیتے۔ حکومت اگر چاہتی تو سہارنپور میں شوبھا یاترا کی ناکامی کے بعد رانا پرتاپ ریلی کو دلتوں کی گلیوں سے گزرنے سے باز رکھا جاسکتا تھا۔ راناپرتاپ ریلی سے سہارنپور میں حالات کس قدر کشیدہ ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں اس کا اندازہ ہم سیاسی لیڈران کی بیان بازیوں اور روزانہ کی خبروں سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اگر معاملہ محض رانا پرتاپ کی ریلی نکالنے تک محدود ہوتا توبھی شاید ٹھیک تھا، مگر چند دلت سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ 146ہمارے قائدین کو گالیاں دی گئیں145، ظاہر ہے یہ بات کس طرح برداشت ہونی تھی؟
بجنور، نجیب آباد، میرٹھ اور سہارنپور یہ ایک ایسا بیلٹ ہے جہاں کانشی رام نے گاؤں گاؤں جاکر اپنے ووٹ بنک کو مضبوط کیااور دلت مسلم اتحاد بنانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ آج کانشی رام نہیں رہے لیکن ان کی محنتوں کے انمٹ نقوش اب بھی نظر آتے ہیں۔ سہارنپور میں بھی دلت مسلم اتحاد بڑی قوت کا حامل ہے اور اس اتحاد میں درار پیدا کرنے کی کوششیں موجودہ برسراقتدار پارٹی ہی کی جانب سے نہیں ہورہی ہے بلکہ اس سے قبل کی حکومت نے بھی کانشی رام میڈیکل کالج کانام تبدیل کرکے مجاہد آزادی شیخ الہند محمودالحسن سے منسوب کرکے دونوں طبقوں کے مابین خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات الگ ہے کہ اس وقت دلتوں نے صبر وحکمت سے کام لیا اورخلیج اتنی نہیں بڑھی کہ تلوار اور گنڈاسے نکل آتے۔ جیساکہ مہارانا پرتاپ ریلی کے بعد دلت سڑکوں پر نکل آئے۔
سہارنپور میں یہ باور کرانے کی کوشش تو کی گئی کہ مسلمان دلتوں اور دیگر ہندوؤں کے خلاف ہیں مگر تعلیم یافتہ دلت نوجوانوں نے اسے بروقت بھانپ لیا اور دلتوں کے نئے ابھرتے ہوئے قائد چندر شیکھر 146راون145 نے ایک ویڈیو پیغام میں اس بات کی نفی کی کہ مسلمان ان کے، یا وہ مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہہ گئے کہ دلت اور مسلمان ظلم کے خلاف اس لڑائی میں ساتھ ساتھ ہیں۔ خیال رہے کہ روایتی گجرات کے قبائلی علاقوں میں آباد دلتوں اور پسماندہ ذات کے لوگوں کا مسلمانوں کے خلاف 146خطرناک استعمال145 کیا گیا تھا اور یہ کوئی نئی بات نہیں عام طور سے دلت ایسےہی استعمال ہوتے آئے ہیں۔
بھیم آرمی چیف کا سخت ترین بیان
بھیم 146آرمی145 یعنی بھیم فوج کی ترکیب سیاسی پس منظر میں تو خلاف معمول نہیں لگتی کیونکہ اس ملک میں ملک کی اپنی 146سینا145 کے علاوہ رام سینا, راون سینا سے لیکر شیو سینا تک اور بھی کئی سینائیں ہیں، لیکن جب اسے خاص طور پر سہارنپور واقعے کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے تو غور کرنا لازم ہوجاتا ہے۔
بہت پہلے مشہور ماہر سماجیات جناب رام پنیانی سے ممبئی میں ہونے والی ایک غیر رسمی ملاقات میں انہوں نے کہا تھا، 146آپ کو کیا لگتا ہے کہ راست بازوں کے نشانے پر مسلمان ہیں؟ ارے نہیں جناب، اصل نشانہ دلت ہیں، مسلمان تو ضمنی نقصان اٹھا رہا ہے۔145
اپنی پارٹی یعنی بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کا جو نشہ ملک کے دیگر بھاجپائیوں کو چڑھا تھا، سہارنپور کے بی جے پی ایم پی اس دوڑ میں کیسے پیچھے رہتے۔ انہوں نے 146مہا145 رانا پرتاپ کی شان میں یاترا نکالی، لیکن اس مرتبہ وہ اپنے اشتعال کا ہدف 146اصل نشانے145 کی طرف کرتے ہوئے یہ فراموش کر بیٹھے کہ جو قوم صدیوں تک اونچی ذاتوں کا ہتھیار بن سکتی ہے، ان کے کہنے پر ہتھیار اٹھا سکتی ہے، وہ خود بھی تو اپنے تحفظ وبقا کیلئے ہتھیار اٹھا سکتی ہے۔ ظلم اتنا ہی کرو کہ مظلوم اسے برداشت کر سکے۔ شدت ظلم کی انتہا کو اتنا نہ بڑھاؤ کہ برداشت حد سے تجاوز کر جائے اور مظلوم کا ہاتھ اگلے ہی پل آپ کے گریبان پر ہو۔ ظالم کو معلوم ہے کہ ظلم کی زندگی ظالم کے گریبان تک مظلوم کا ہاتھ پہنچنے تک ہی دراز ہوتی ہے۔ مظلوم اور وہ بھی دو چار برس کا نہیں، صدیوں کا مظلوم سہارنپور کے واقعے پر بپھر اٹھا اور اس نے چندر شیکھر کی شکل میں بھیم آرمی چیف کو ہمارے سامنے لا کھڑا کیا جو مظلوم دلتوں سے کہتا ہے کہ 146تین ہزار روپئے موبائل خریدنے پر ضائع مت کرو، کٹّا (دیسی پستول) خریدو، اس سے پہلے کہ وہ تمہیں نپٹائیں، تم انہیں نپٹا دو۔145
چندر شیکھر، جس نے اپنا تخلص 146رام145 کی ضد میں 146راون145 رکھا ہے، سڑک کا کوئی غنڈہ موالی نہیں بلکہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہے جو تعلیم یافتہ اور سمجھدار مگر 146زہریلے145بول بولنے والوں کا لیڈر ہے۔ کٹّا خریدنے کی ترغیب دینا یقیناً غلط ہے، لیکن اخلاقی طور پر اور مہذب سماج میں۔ ایسے سماج میں نہیں کہ جہاں 146یارانِ ظالماں145 پولس کی معیت میں دندناتے پھرتے ہوں (مقامی دلتوں نے بتایا کہ پولس نے اونچی ذات کے لوگوں کو گھر پھونکنے اور انہیں مارنے پیٹنے کیلئے دو گھنٹے کی مہلت دی تھی)۔
یاد رکھیں کہ جب سیاسی نظام بھی ظلم کا نظام بن جاتا ہے تو اس نظام پر یقین رکھنے والوں کا یقین اٹھ جاتا ہے۔ اور ہندوستان کی جدید تاریخ گواہ ہے کہ ہم کسی بھی 146مخالف آواز145 کو دبانے یا اسے سمجھانے سے قاصر رہے ہیں۔ وہ تو سلام ہے افواجِ ہندوستان کو کہ جن کے سبب ساری 146مخالف آوازیں145 قابو میں ہیں۔
چند شیکھر کی بھیم سینا کے زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پورے دلت سماج پر ہونے والے مظالم کی تاریخ سے واقف ہیں۔ وہ خود کو گاندھی کے دیئے ہوئے نام 146ہری جن145 (بھگوان کی اولاد) سے الگ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 146ہمیں مندر میں پوجا کرنے کی اجازت نہیں، یعنی ہمارا بھگوان نہیں۔ تو جن کا بھگوان ہے، وہ ہونگے ہری جن۔ ہم تو دلت ہیں، چمار (ہر چند کہ اتر پردیش میں اس لفظ کے استعمال پر پابندی ہے لیکن اب سہارنپور کا دلت خود کو 146گریٹ چمار145 کہنا پسند کرتا ہے) ہیں۔
کون ہے در پردہ..؟
اپنی بات کو درست ثابت کرنے اور سہارنپور کے واقعے سے توجہ ہٹانے کی غرض سے بھیم سینا سے متعلق کئی باتیں کہی گئیں: یہ مسلح تنظیم ہے، نکسلی ہیں، چند شیکھر روپوش ہے، یہ مایاوتی کا مسلح بریگیڈ ہے۔
لیکن اب تک کسی الزام کے دانڈے وہاں تک نہیں ملتے۔ یہ لوگ کانشی رام کے معتقدین اور اس کے سبب بہن مایاوتی کے معتقدین ضرور ہیں لیکن اپنی حالت زار کیلئے مایاوتی کو بھی ذمہ دار سمجھتے ہیں اور ان سے ناراض ہیں۔ بی جے پی نے صراحتاً الزام عائد کیاکہ یہ تنظیم بی ایس پی کا حصہ ہے اور مایاوتی کے اشارہ پر اس غیر سیاسی بینر سے تحریک چلائی جارہی ہے، جبکہ بی ایس پی نے سرے سے پلّہ جھاڑتے ہوئے کہا کہ یہ بی جے پی کی سازش ہے اور بہوجن سماج پارٹی کا بھیم آرمی سے کوئی تعلق نہیں۔ مایاوتی کا ماننا ہے کہ بھیم آرمی بی جے پی کا ہی پروڈکٹ ہے جو کہ بھاجپا کے تحفظ میں پل بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک بھیم آرمی کے کسی لیڈر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ وہ مانتی ہیں کہ بی ایس پی خالص ایک سیاسی پارٹی ہے جس میں ہر سماج و مذہب کو نمائندگی حاصل ہے۔
بات خواہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ تو سب پر عیاں ہے نا… کہ دلتوں پر صدیوں سے مظالم ہوتے رہے ہیں اور ان کے ساتھ سہارنپور میں بھی زبردستی کی گئی, ظلم کیا گیا۔ کیا ظالم یہ سمجھتا ہے کہ 146ظلم کی کوئی انتہا نہیں ہوتی145۔ حکومت کے لئےاب بھی وقت ہے کہ ذات پات، مذہب و طبقہ، امیر و غریب کے فرق کو مٹاکر سبھی کو ہندوستانی بنانے کی فکر کرے۔ ورنہ ہماری آبادی کے تناسب میں جو مسائل درپیش ہیں، وہ مزید داخلی انتشار کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں۔