مسلمان کسے کہتے ہیں؟

نسیم احمد غازی فلاحی

ہمارے بڑے بھائی جگدیش پرشاد گویل حجامت بنوانے کے لیے ایک مسلم حجام کی دوکان پر گئے۔ وہ اکثر اسی دوکان پر حجامت بنوایا کرتے تھے۔ عام طور پر حجام کی دوکان پر کچھ انتظار کرنا پڑتا ہے، اس دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ کئی لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ کے ہاتھوں میں اخبارات و رسائل تھے جن کو وہ پڑھ رہے تھے، کچھ لوگ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرنے میں مصروف تھے۔ بھائی صاحب بھی سیٹ پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے اور پاس ہی رکھی کچھ کتابیں الٹنے پلٹنے لگے۔ ان کی نظر ایک کتاب پر پڑی اور اس کی فہرستِ مضامین دیکھتے ہی وہ چونک پڑے۔ وہ کتاب تھی مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی خطبات (حصہ دوم) اور جس عنوان پر بھائی صاحب چونکے وہ عنوان تھا:”مسلمان کسے کہتے ہیں؟”۔ اس عنوان پر حیرت اس لیے ہوئی کہ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ جو شخص جس مذہب میں پیدا ہوتا ہے، اس کی نسبت اسی سے ہوتی ہے۔ ہندو خاندان میں پیدا ہونے والا ہندو کہلاتا ہے اور سِکھ خاندان میں پیدا ہونے والا سِکھ۔ اسی طرح مسلمان بھی اسےکہتے ہیں جو مسلمان گھر میں پیدا ہوا ہو۔ پھر اس وضاحت اور تعارف کی کیا ضرورت ہے کہ”مسلمان کسے کہتے ہیں؟” یہ تو بڑا عجیب سا سوال ہے۔ بھائی صاحب نے سوچا کہ اس کتاب کو پڑھنا چاہیے، اس میں ضرور کوئی خاص بات بتائی گئی ہوگی۔
بھائی صاحب حجام کی اجازت سے اس کتاب کو مطالعے کے لیے گھر لے آئے اور اس طرح اسلام سے متعلق مولانا مودودی کی یہ معرکہ آرا اور انقلابی کتاب ایک اگروال خاندان میں پہنچ گئی۔ جب اس کتاب کا مطالعہ کیا گیا تو اس نے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس کتاب کے مطالعے سے پہلی بار معلوم ہوا کہ کوئی سخص صرف مسلمان خاندان میں پیدا ہونے سے مسلمان نہیں ہوتا، بلکہ کچھ بنیادی عقائد کو تسلیم کرنے، کچھ اصولوں کو ماننے اور ان پر عمل پیرا ہونے سے مسلمان بنتا ہے اور وہ اصول و اعمال اتنے زرّیں ہیں کہ انسانوں کو سچّی راحت سے ہمکنار کردیں اور ان کی زندگیوں اور انسانی سماج کو امن و آشتی کا گہوارہ بنادیں۔ اس چھوٹی سی کتاب میں بڑے ہی آسان اور مدلل طریقے سے یہ بات بتائی گئی ہے کہ مسلمان خدا کو ماننے اور اس کے احکام کی پابندی کرنے والے کو کہتے ہیں اور خدا کے احکام انسان کی پوری زندگی کے لیے ہیں۔ یہ بات بھی اس کتاب میں بتائی گئی کہ اگر کوئی شخص ان باتوں کا انکار کردے تو وہ مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود مسلمان نہیں رہتا اور اگر کوئی شخص کسی غیر مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہو لیکن وہ خدا کو مان کر اس کے احکام پر عمل کرنے کا فیصلہ کرے تو وہ مسلمان ہو جاتا ہے۔
اس کتاب کو پڑھ کر مزید حیرت اس لیے بھی ہوئی کہ شاید دوسرے مذہب میں اپنے ماننے والوں کے لیے اس طرح کی اصولی پابندی موجود نہیں۔ خاص طور سے ہندو دھرم میں تو بالکل نہیں۔ اس کتاب کی پشت پر اس کتاب کے دیگر اجزا اور بعض دوسری اسلامی کتابوں کی فہرست دی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس کتاب کے مطالعے کے بعد اس کے مزید اجزا اور قرآن و سیرتِ رسولؐ اور دیگر اسلامی کتب پڑھنے کا اور جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ دراصل یہ کتاب جماعتِ اسلامی والے ہی جحام کی دوکان پر رکھ آئے تھے۔ اس لیے اس کتاب کے ذریعے جماعتِ اسلامی والوں سے رابطہ ہو گیا اور پھر دھیرے دھیرے اسلام کا مطالعہ اور اس کے مختلف پہلووں پر گفتگو شروع ہو گئی۔ جماعتِ اسلامی کی طرف سے شائع شدہ کتابیں اتنے مدلل اور سائنٹفک انداز میں لکھی ہوئی ہیں کہ ان کے مطالعے کے بعد ایک ایک بات دل میں اتر جاتی ہے اور آدمی کے قدم مالکِ حقیقی خدائے واحد لا شریک لہ کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔
جماعتِ اسلامی والوں سے رابطے کے بعد یہ اندازہ بھی ہوا کہ یہ لوگ بھی عجیب لوگ ہیں کہ انسانوں کو جہنم سے بچانے اور جنّت کا مستحق بنانے کے لیے کتنے فکرمند اور کوشاں رہتے ہیں۔ اپنے اس پاکیزہ اور اعلی مقصد کے حصول کے لیے نہ جانے یہ لوگ کیا کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ کتنی محنت اور مشقت کرتے ہیں۔ رات دن غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے بڑی موثر اور مفید کتابیں تیّار کر رکھی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ لوگ پہلے تو اس طرح کی کتابیں اور کتابچے فطری انداز میں لوگوں تک پہنچانے کی تدابیر کرتے ہیں، پھر نظر رکھتے ہیں کہ وہ کتاب کہاں گئی اور اس نے کیا اثر دکھایا، پھر جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی کوشش رنگ لا رہی ہے تو پھر خدا کے یہ بندے ایسے لوگوں سے رابطہ قائم کرتے ہیں، ان کی غلط فہمیاں دور کرتے ہیں، اسلام کی قیمتی تعلیمات سے انھہں روشناس کراتے ہیں اور بندگانِ خدا کو جہنّم سے بچا کر اور انھیں ان کے پیارے رب سے ملا کر ہی دم لیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مقصد اور نصب العین کے بڑے دھنی ہیں۔ واقعی کتنے مبارک ہیں یہ لوگ اور کتنا مبارک ہے ان کا مشن! یہ ہیں انسانیت کے سچّے دوست اور سچّے بہی خواہ!