مریض کی عیادت اور رسولِ اکرمؐ کا اسوہ

صحت اور بیماری انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے شاید کوئی ایسا انسان نہیں جو ہمیشہ صحت یاب رہا ہو اور ایک لمحہ کے لیے بھی کسی مرض میں مبتلا نہ ہوا ہو، اس میں کوئی شک نہیں کہ صحت آدمی کے لیے ہزار نعمت ہے تمام دینی و معاشرتی خدمات اہل وعیال کی نگرانی، تجارت و کاروبار بلکہ دنیا کا کوئی بھی ایسا کام نہیں جس کے لیے صحت کی ضرورت نہ ہو، اسی لیے ہر شخص یہ تمنا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ صحتمند اور تر و تازہ رہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بیماری صرف دکھ اور مصیبت کی چیز ہے اس میں راحت اور نعمت کا کوئی پہلو نہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری ایک طرح سے رحمت بھی ہے اس سے گناہوں کی صفائی ہوتی ہے اور جنت میں درجات بلند ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ بعض بندوں کے لیے آخرت میں بلند مقام کا فیصلہ کرتا ہے مگر ان کے پاس وہ اعمال نہیں جن کے سبب وہ اس کے مستحق ہوسکیں اس لیے بسا اوقات بعض بیماریوں میں مبتلا کر کے ان کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آخرت کی اس بلندی اور مقام کے اہل ہو جائیں، اس لیے اللہ کے سعادت مند بندوں کو چاہیے کہ مصیبت اور بیماری پر صبر کریں اللہ کی مرضی پر ہر حال میں خوش رہیں، دوا اور ظاہری اسباب کو اختیار کرنے کے ساتھ ضرور اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ان مصائب و امراض میں ضرور اللہ کی حکمتیں پوشیدہ ہوں گی۔

یہ بات تو ظاہر ہے کہ شریعت نے مریض کو صبر کرنے کی تاکید کی ہے مگر اس کے تعلق سے اس کے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور عام مسلمانوں پر بھی کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں جن کی نگہداشت آخرت پر یقین رکھنے والوں کے لیے از حد ضروری ہے۔ کسی بھی بیمار شخص کے تئیں ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ اس کے ساتھ ہمدردی اور غمخواری کی جائے، اس کے احوال پوچھے جائیں اور جہاں تک ہوسکے اس کا تعاون کیا جائے، اسی کو عربی زبان میں عیادت کہا جاتا ہے۔

عیادت کی ادنیٰ قسم تو یہ ہے کہ بیمار کے پاس جا کر اس کی مزاج پرسی کر لی جائے یا تیمار داروں سے اس کے احوال معلوم کر لیے جائیں لیکن عیادت کی اعلیٰ قسم یہ ہے کہ اس کے ساتھ مکمل غمخواری کی جائے یعنی اگر اس بیمار کے پاس پیسے کی کمی ہے اور اللہ نے آپ کو وسعت دی ہے تو آپ پیسوں کے ذریعہ اس کا تعاون کریں تا کہ دوا و علاج صحیح طور پر کیا جا سکے۔ اگر خدمت گزاری کی ضرورت ہوتو اس کا انتظام کیا جائے۔

صحیح ڈاکٹر کی رہنمائی کی جائے، اپنے علم کے اعتبار سے صحیح، مفید اور بہتر مشورے دئیے جائیں بہر حال جیسا بھی ہو ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان بھائی کو مرض اور بیماری میں مبتلا دیکھ کر اس کے رحم کے جذبات ابھریں اور اس کی مصیبت کا اسے بھی احساس ہو، بلاشبہ ہر بیمار قابل رحم ہوتا ہے کیا بعید ہے کہ اس کی بیماری پر رحم کرنے والا جب کبھی مرض میں مبتلا ہو جائے تو غیب سے اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرنے والے افراد کو مہیا کریں، شریعت نے بھی بیماروں کے ساتھ ہمدردی کی ہے کہ وہ بہت سے فرائض جن کے ادا کرنے سے وہ مجبور ہیں یا جن کے ادا کرنے سے ان کی تکلیف میں زیادتی ہوسکتی ہے ان کو یک قلم معاف کر دیا گیا ہے۔

مثلاً ایک بیمار ایسا ہے جس کے لیے پانی کا استعمال نقصان دہ ہے یا وضو کرنے کی اس کو طاقت نہیں تو شریعت نے اسے وضو کا مکلف نہیں بنایا بلکہ تیمم سے نماز پڑھنے کی تاکید کی ہے، اسی طرح اصل یہ ہے کہ نماز کھڑے ہو کر ادا کی جائے مگر کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتا تو اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ بیماری کی بنیاد پر جمعہ کی نماز معاف ہو جاتی ہے، روزہ کو رمضان میں ادا کرنے کے بجائے صحت و تندرستی پانے کے بعد رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اسی طرح حج کے احکام میں بھی بہت سی رخصتیں دی گئی ہیں ۔ قرآن کریم کے متعدد مقامات میں یہ ارشاد ہے:

وَ لَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ۔
اور نہ بیمار پر کوئی تنگی ہے