آمنا سامنا میڈیا نیٹ ورک کے لئے خاص مضمون
(مضمون نگار شبنم خان (منذرہ – کچھ، گجرا ت
ہندوستانی آئین جوخود مختار ، سیکولر اور جمہوری ملک کیلئے بنایا گیا ہے یہ اسمبلی کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے ذریعے ۲۶؍نومبر ۱۹۴۹ء کے دن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی رہنمائی کے تحت بنایا گیا اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کے دن سے اس پر عمل شروع ہوا۔
زندگی گزارنے کیلئے جس طرح پانی ضروری ہے اسی طرح کسی شخص کی ترقی کیلئے اس کے بنیادی حقوق کا ہونا ضروری ہے ، ایسے حقوق جن کے ذریعے اس شخص کو جسمانی ، بنیادی اور روحانی ترقی حاصل ہو۔ ہندوستان کے آئین میں ہر اس شخص کو جو ہندوستان کا شہری ہے کچھ بنیادی حقوق دئیے گئے ہیں ، ایسے بنیادی حقوق جو ہر شہری کو اس کی ذات مذہب جائے پیدائش وغیرہ کی تفریق کے بغیر مساواتی طور پر لاگو ہوتے ہیں۔ایسے حقوق جن سے کوئی بھی شخص محروم نہیں رکھا جا سکتا وہ ہر شہری کے بنیادی حقوق ہیں۔
ہندوستان کے آئین کے تیسرے حصے میں چھ بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے (۱) مساوات کا حق (۲) آزادی کا حق (۳) استحصال کے خلاف حق (۴) مذہبی آزادی کا حق (۵) ثقافت اور تعلیم سے متعلق حق (۶) آئین میں تجویز کا حق۔
یہ چھ ایسے بنیادی حقوق ہیں جن کو ہندوستان کے آئین میں جگہ دی گئی اور اسکی خاصیت یہ ہے کہ عام قوانین میں ریاستوں کی دخل اندازی ہو سکتی ہے اور کچھ قوانین گھٹائے بڑھائے جا سکتے ہیں۔ مگر ان چھ بنیادی حقوق میں جو ہر شہری کو مساواتی طور پر دئیے گئے ہیں ان میں کسی طرح کی ترمیم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ریاستیں ان میں دخل انداز ہو سکتی ہیں ، ان قوانین کی مخالفت کوئی نہیں کر سکتا نیز ان کی حفاظت خود ہندوستان کا آئین کرتا ہے۔
ہندوستانی آئین کے تیسرے حصے میں مضمون ۱۸- ۱۴ میں مساوات کے حقوق، مضمون ۲۲-۱۹ میں آزادی کے حقوق، مضمون ۲۴-۲۳ میں استحصال کے خلاف حقوق، مضمون ۲۸-۲۵ میں مذہبی آزادی کے حقوق ، مضمون ۲۹-۳۰ میں ثقافت اور تعلیم سے متعلق حقوق، ۳۲ میں آئینی تجویز کے حقوق کا تذکرہ ہے۔
ہندوستان کے لوگ مختلف مذاہب اور تہذیب پر یقین رکھتے ہیں ، مختلف پرسنل لاء کے ذریعے سے ان کی حفاظت اور نگرانی ہوتی ہے جس میں پیدائش، موت ، طلاق وغیرہ کا شمار ہوتا ہے ۔ ہندوستانی آئین کے مطابق ہر شہری کو ملے چھ مساواتی بنیادی حقوق میں مضمون (۱) ۲۵ میں مذہبی آزادی کا حق ہے اور مضمون ۱۴ میں مساوات کا حق ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی نیا قانون بنایا جائے گا تو ہر شہری کو ملے ان چھ بنیادی حقوق کے مد نظر بنایا جائے گا ، اس طرح کہ ان چھ حقوق میں سے کسی ایک حق کی بھی پامالی نہ ہو ، تو پھر ’پرسنل لاء ‘ یعنی شخصی قوانین کیا مضمون ۱۴ مساوات کے حق کی خلاف ورزی نہیں کرتا ؟
کیا مذہبی آزادی اور ثقافت سے متعلق حق کے پیش نظر ’پرسنل لاء ‘ بنائے جاتے ہیں یا پھر یہی پرسنل لاء مساوات کے قانون کی خلاف ورزی کرنا ہے؟
پرسنل لاء کو صرف مسلم کمیونٹی سے نسبت نہ دے کر بھارت کی ہر قسم کی کمیونٹی ، مذاہب، قبائل کی طرف نظر کریں تو پتہ چلے گا کہ ان سب کا اپنا پرسنل لاء ہے جس میں حکومت مداخلت نہیں کرتی اور اگر ان پرسنل لاء کے بدلے ہر ایک کیلئے یکساں حقوق و قوانین بنائے جائیں تو اس کا اثر کیا ہوگا؟
ہندوستان کے اندر ہندو ، مسلم ، سکھ، عیسائی ، جین، آدیواسی نیز ہندو مذہب کی بھی مختلف شاخیں ہیں جن کا خود کا اپنا نظام، مذہب، سوچ، ثقافت اور کمیونٹی ہے۔ ہندوستان کی امتیازی شان ہی یہی ہے کہ یہ مختلف ثقافتوں کا سنگم ہے ۔ ہر کمیونٹی اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کیلئے اپنے پرسنل لاء بناتی ہے جن کے ذریعے وہ اپنی پیدائش ، موت، شادی، بیاہ، طلاق وغیرہ کے معاملات کو انجام دیتے ہیں اور انہی انوکھے ربط و رواجوں کے ذریعے ثقافت زندہ رہتی ہے ، مثلاً مسلمانوں کا اپنا ’مسلم پرسنل لاء بورڈ ‘ہے جس کی بنیاد ۱۹۷۳ء میں اسلامی قوانین کی حفاظت کی خاطر کی گئی جسے ’مسلم پرسنل لاء ایپلکیشن ایکٹ ۱۹۷۳ ‘ پیش کر کے کی گئی جس کے ذریعے ذاتی کاموں کو شریعت مطہرہ کے مطابق کیا جا سکے اس لئے اس کی بنیاد رکھی گئی ۔ اسی طرح پرسنل لاء میں’ ہندو میریج ایکٹ ۱۹۵۵ ‘ ، ’ہندو سکسیشن ایکٹ ۱۹۵۶ ‘ ، ’کرسچن میریج ایکٹ ‘ ، ’ہندو اَن ڈیوائیڈیڈ فیملی ‘ وغیرہ نیز مضمونA -۳۷۱ کے تحت ناگالینڈ کو خاص دفعات دئیے گئے ہیں جو ہندوستان کے آئین میں موجود ہیں ۔ اب اگر مضمون ۱۴ کے حساب سے اس طرح کے پرسنل لاء غیر ضروری مانے جاتے ہوں تو حرج ہی کیا ہے ؟ کیاپرسنل لاء کو ایک طرف کر کے مساواتی نظام کے تحت ہر شہری کو ایک ہی طرح کے قوانین نہیں دئیے جا سکتے ؟ جو ہر مذہب ، کمیونٹی اور ہر قوم کے لئے یکساں ہو!
تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر شہری کو اپنی سوچ ، مذہب اور من چاہی ثقافت اختیار کرنے کا حق حاصل ہے اور آئین کو اس کی حفاظت بھی کرنی ہے ۔ ہر قانون ہر شہری کیلئے یکساں ہے سوائے ایک قانون کے اور وہ ہے ’پرسنل لاء‘ یعنی ذاتی حقوق، اگر ہم مضمون ۴۴ کی تعریف کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمت جو ذاتی قوانین کی حفاظت کرتی ہے مساوات کے حقوق کے تحت اتحاد پیدا کرنا نقصان دہ امر ہے اور خاص کر ‘ تب جب تمام کمیونٹی کو نظر انداز کر کے صرف ایک قوم کو نشانہ بنایا جائے اور اسکے پرسنل لاء کی مخالفت کی جائے ۔
سمجھنے کی بات ہے کہ اس میں سیاست اور فرقہ پرستی کو بھڑکانے والا قدم ہو سکتا ہے ، جو ہر شہری کو ملے اس کے چھ بنیادی حقوق سے محروم کرنے والا ثابت ہو سکتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہم اس قانون کے بارے میں کیا کہیں گے کہ ’’دی کانسٹی ٹیوشن (امینڈ منٹ ۱۳) دفعہ ۱۹۶۲ میں ناگالینڈ کو خاص حقوق حاصل ہیں کہ حکومت ان کی ریاست میں مداخلت نہیں کرے گی اور ان کے قوانین ان کی اپنی ثقافت کے لحاظ سے ہوں گے ۔ اسی طرح ’اسپیشل میریج ایکٹ ۱۹۵۴ ‘ جو گوا کے لئے ہے ، وہاں کے وزیر اعلیٰ منوہر پریکر نے قانون بنایا کہ شادی بیاہ کا رجسٹریشن ضروری نہیں ہے حالانکہ آئین کے دوسرے قانون کے مطابق پیدائش، موت، شادی وغیرہ کا رجسٹریشن ضروری ہے ۔ اسی طرح گوا میں ایک اور قانون ہے کہ عورت اگر ۲۵؍ سال کی ہو گئی اور وہ بچہ جننے کے قابل نہیں تو مرد دوسری شادی کر سکتا ہے ، اسی طرح عورت اگر ۳۰ ؍ سال کی عمر تک اولادِ نرینہ کو پیدا نہیں کرتی تو مرد دوسری شادی کر سکتا ہے۔ جبکہ ’ہندو میریج ایکٹ ‘ کے مطابق ایک بیوی کے ہوتے ہوئے شوہر دوسری شادی نہیں کر سکتا ۔ اتنا ہی نہیں ہندوستان میں ایسی اقوام بھی موجود ہیں جن میں ایک مرد کی دو بیویاں ہی نہیں بلکہ ایک عورت کے دو دو شوہر بھی ہوتے ہیں ، مگر پھر بھی یہ لو گ اسے اپنی ثقافت کا حصہ مانتے ہیں نیز ایک قوم ایسی بھی ہے جس میں چھوٹے بھائی کی بیوی پر اس کے بڑے بھائی کا حق ہوتا ہے ۔ اور ہم بات کر رہے ہیں پرسنل لاء کی اور ان قوانین کی جن کی بجا آوری ان قوموں کو اپنی بقا کے لئے ضروری ہے ، ان پر عمل کرنا اور ان کے لئے یہ ساری باتیں معمولی ہیں کیونکہ ان کی زندگی بسر کرنے کا انداز ہی ایسا ہوتا ہے ۔ ’متاکشر‘ اور دیا بھگاوے ’اسکول آف تھاٹْس ‘ ان کے ایسے قوانین ہیں جو اولاد کووراثت سے نوازتے یا محروم کرتے ہیں ۔
نیز ’ دی ہندو لاء آف انہیریٹئنس ۱۹۲۹ ‘ جس میں ’ہندو اَن ڈیوائیڈیڈ فیملی‘ میں بیٹے کی بیٹی اور بیٹی کی بیٹی کا شمول کیا گیا ہے، یوں ہر کمیونٹی کا اپنا پرسنل لاء ہے اور کوئی ان کے قوانین کے متعلق بات بھی نہیں کرتا نہ کسی کی زبان پر یہ بات آتی ہے اور کوئی ان کے پرسنل لاء میں مداخلت نہیں کرتا پھر بھی کچھ کمیونٹیس کے ذاتی قوانین کو بدلنے کا حق کسی کو نہیں ۔ ہندوستان کا آئین اگر لوگوں کے مذہب ، ثقافت اور کمیونٹیس کے اوپر اگر یکساں مساواتی نظام قائم کرے تو ہمارا ملک جمہوری ملک نہ رہ کر سامنت شاہی والا ملک بن کر جائے گا جیسا کہ برسوں پہلے مغربی ممالک میں ہوا تھا۔
مضمون ۴۴ کے معنی مساوات کا نہ لے کر پرسنل قوانین کی حفاظت ہو اس طرح ہر شہری کے بنیادی حقوق کے ساتھ ان کو اپنے ذاتی قوانین پر عمل کرنے دیا جائے جس سے ہندوستان میں پھیلی ہوئی’ تقویم میں اتحاد ‘ والی ثقافت کی حفاظت ہو ۔ چاروں طرف پھیلی ہوئی مختلف کمیونٹیس اور ثقافتوں کو یک طرفہ کر کے پل بھر میں قانون بدلنے سے فائدہ کم نقصان کا ہی پہلو زیادہ ہیں خاص کر تب جب ان کا تعلق مذہب اور یقین کے ساتھ ہو ، جس سے ہمارے بنیادی حقوق میں سے آزادی اور مذہبی آزادی کی بنیاد پر بنے پرسنل لاء جو بنیادی حقوق سے الگ نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے وہ اور ہندوستان کی تقویم میں اتحاد والی ثقافت قائم رہ سکے ۔