عبدالرحمن صدیقی (نیوز ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
مودی نے جب 2014 میں ملک کا اقتدار سنبھالا تھا تو ایک ہندو توا وادی رہنما نے جو اب آنجہانی ہوچکے ہیں کہاتھاکہ پرتھوی راج چوہان کے بعد ملک کو پہلا ہندو راجہ ملا ہے۔ اگر چہ نریندر مودی کی جیت شاندار تھی اور لوک سبھا میں انہیں بھر پور اکثریت حاصل تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کا چہرہ سامنے رکھ کر بی جے پی نے کئی ریاستوں میں الیکشن بھی جیتا اور دہلی، بہار، مغربی بنگال، جیسی ریاستوں میں دال نہیں گل سکی لیکن ایسی ایسی ریاستوں میں پارٹی کو کامیابی ملی جہاں اس سے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ کامیابی ادھوری تھی ملک میں صدرجمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ دونوں کانگریسی تھے۔ لوک سبھا میں حکومت کو اکثریت حاصل تھی لیکن راجیہ سبھا میں کانگریس کی اکثریت تھی۔ اگر چہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی اور نائب صدر حامدانصاری کے موجودہ حکومت سے تعلق نہایت خوشگوار ہیں لیکن راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے اور صدر و نائب صدر جمہوریہ دونوں کے کانگریسی ہونے کی وجہ سے بہرحال ہندو تواوادی ایجنڈہ کو حکمرانی کا ایجنڈہ بنانے میں دقت ہوئی اس لیے سنگھ پریوار نے 2014 کے آدھے ادھورے اقتدار کو2019 کے مکمل اقتدار میں بدلنے کی حکمت عملی اپنالی اور اس میں ان کو کافی حد تک کامیابی بھی ملی ۔ ملک میں فرقہ وارانہ ماحول بگاڑ ا گیا، گئو ہتیا کے نام پر ہنگامہ کھڑا کیاگیا، گھر واپسی کے نام پر تحریک چلائی گئی، اور اس کا کسی حد تک فائدہ بھی ہوا اب حالت یہ ہے کہ اترپردیش اور اترا کھنڈ جیسی اسمبلیوں میں واضح اکثریت ملنے کے بعد راجیہ سبھا میں بھی حکومت کو اکثریت ملنے کے آثار نظر آرہے ہیں آئندہ سال جون تک یہ بھی ہوجائے گا۔
ان حالات اور ماحول میں بی جے پی کی کوشش یہ ہوگی کہ صدرجمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ دونوں ایسے ہوں جن کا تعلق سنگھ پریوار سے ہوجب راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اکثریت مل جائے گی او رمزید چند ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوجائے گی ، صدرجمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ بھی ان کا بنے گا تو ہندوستان عملاً ہندو راشٹر بن جائے گا، اس لیے اگلا صدرجمہوریہ کون ہو اس پر غور وخوض جاری ہے۔ شیوسینالیڈر ادھو ٹھاکرے نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد موہن بھاگوت کا نام لیا تھا لیکن کسی بھی حلقہ میں اس پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ، وزیر اعظم نریندر مودی اس سلسلہ میں صلاح ومشورہ میں مصروف ہیں اور جلد ہی پہلے صدرجمہوریہ او ربعد میں نائب صدرجمہوریہ کے نام کا اعلان ہوجائے گا۔
ادھر اپوزیشن بھی اس معاملے میں سرگرم ہے، کانگریس آئی کی لیڈر سونیاگاندھی مختلف پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ صدارتی امیدوار کو لے کر تبادلہ خیال کرچکی ہیں ایک بات واضح ہے کہ اگر اپوزیشن پوری طرح متحد ہوجائے تو صدرجمہوریہ کے عہدے کے لیے اپنے امیدوار کو کامیاب بنایا سکتا ہے۔ ایک تھیوری بعض حلقوں کی طرف سے یہ بھی پیش کی جارہی ہے کہ موجود ہ صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی کی میعاد میں توسیع کردی جائے۔کانگریس او رکچھ اپوزیشن پارٹیاں تو اس پر متفق ہوسکتی ہیں لیکن حکمراں بی جے پی کا اس پر اتفاق مشکل ہے کیوں کہ بی جے پی کی ہر ممکن کوشش یہی ہوگی کہ اس عہدہ پر وہی شخص فائز ہو جو ہندو توا وادیوں کے عزائم کی تکمیل میں معاونت کرے۔
بھگوا وادی طاقتیں ملک کو جس راستہ پر لے جارہی ہیں اس کو روکنے کی کوشش جن لوگوں پر عا ئد ہوتی ہے بدقسمتی سے انہیں صورت حال کی سنگینی کا احساس تو ہے جس کا اظہار ان کے بیانات سے ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے لیے جس پیمانے کی تحریک کی ضرورت ہے اس کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں جہاں ایک طرف بی جے پی کی بھگوا طاقتیںسیکولر ہندوستان کو ہندو راشٹر او رکانگریس مکت بھارت بنانے پر تلی ہوئی ہیں ان کاراستہ روکنے کے لیے سیکولر پارٹیوں کے درمیان اتحاد بہت ضروری ہے اور اس کا ایک راستہ یہ ہے کہ اپوزیشن نئے صدرجمہوریہ کے انتخاب کو ملک کے سیکولر ازم کے احیاء کے لیے چیلنج کے طور پر قبول کرے، صدرجمہوریہ کے الیکشن کے لیے جو الیکٹرورل کالج ہوتا ہے اس پر آج بھی اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے اور سیکولر ازم کی بقا ء کی لڑائی پوری طاقت سے لڑے کیونکہ صدارتی الیکشن ایک طرح کا ٹیسٹ کیس ہے۔
(بصیرت فیچرس)