چاند کا مسئلہ کیا ہے؟

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی(سعودی عربیہ)
شریعت اسلامیہ میں واضح تعلیمات کی وجہ سے پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مہینہ کی 29 تاریخ کو چاند نظر آنے پر اگلے ماہ کی پہلی تاریخ تسلیم کی جاتی ہے، ورنہ مہینہ 30 دن کا ہوتا ہے، اور کوئی بھی قمری مہینہ 31 دن کا نہیں ہوتا ہے۔ سعودی حکومت نے موسم فلکیات کے اندازں کے مطابق چاند کی 29 یا 30 تاریخ طے کرکے عرصہ دراز سے ایک کیلنڈر تقویم ام القری کے نام سے اپنے ملک میں رائج کررکھا ہے، لیکن یہ کیلنڈر صرف دفتری کاروائی تک محدود رہتا ہے۔ سعودی عرب میں چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا حقیقی فیصلہ سپریم کورٹ کرتی ہے جس کی روشنی میں روزے، عید الفطر، حج اور عید الاضحی وغیرہ عبادتیں کی جاتی ہیں۔ اس تعلق سے سعودی عرب میں کل 6 کمیٹیاں ہیں، ہر کمیٹی میں امارت یعنی حکومت، مجلس قضاء اعلیٰ یعنی علماء کرام اور موسم فلکیات کے نمائندے ہر ماہ کی 29 تاریخ کو ملک کے مختلف حصوں میں چاند دیکھنے اور شہادت قبول کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔ مہینہ کے آخر میں تمام اخباروں میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اعلان بھی شائع ہوتا ہے، جس میں عوام سے 29 تاریخ کو چاند دیکھنے اور چاند نظر آنے پر اطلاع دینے کی درخواست بھی کی جاتی ہے۔ ان چھ کمیٹیوں کا رابطہ سینٹرل کمیٹی سے رہتا ہے جو عرب ممالک کی دیگر رؤیت ہلال کمیٹی سے رابطہ میں رہتی ہیں۔ چاند نظر آنے کی صورت میں شہادت کے قبول ہونے کے بعد سعودی عرب کی سپریم کورٹ چاند نظر آنے کا اعلان کرتی ہے۔ چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا ہے، اس لیے سعودی عرب کی عوام میں ہندوستان اور پاکستان کی طرح چاند دیکھنے کا جذبہ موجود نہیں ہے۔ سعودی عر ب میں بر صغیر کی طرح لوگ چاند دیکھنے کے لیے مکان کی چھتوں پر نہیں چڑھتے ہیں بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کرتے ہیں، البتہ بعض لوگ چاند دیکھنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ جن علاقوں میں موسم فلکیات کی جانب سے چاند نظر آنے کا امکان قوی ہوتا ہے وہاں خصوصی ٹیم بھیج کر چاند دیکھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ سعودی عرب کا رقبہ ہندوستان جیسے بڑے ملک کے برابر ہے، اور عموماً موسم صاف رہتا ہے، اس لیے چاند نظر آنے کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں، نیز ایک جگہ بھی چاند کی شہادت ملنے پر پورے ملک کے لیے اعلان کردیا جاتاہے ۔ دیگر عرب ممالک میں بھی رویت ہلال کمیٹیاں ہیں، جن کا بھی چاند کی ۲۹ تاریخ کو اجلاس ہوتا ہے اور وہ اپنا فیصلہ بھی کرتی ہیں۔ عمومی طورپر سعودی عرب کے فیصلہ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ البتہ کبھی کبھی بعض عرب ممالک کی رویت ہلال کمیٹی سعودی عرب کے فیصلہ سے اختلاف بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے، یااُن کے پاس ایسے کمیٹیاں نہیں ہیں جن کے اعلان کے مطابق روزہ رکھا جائے اس لیے وہاں بھی سعودی عرب کے فیصلہ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ البتہ برصغیر میں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں ہیں اور مدارس عربیہ کے بڑے نیٹ ورک کی وجہ سے وہاں کی چاند کی کمیٹیاں ایسی پوزیشن میں ہیں کہ چاند کے نظر آنے یا نظر نہ آنے پر اعلان کریں اور لوگ اس پر عمل کریں، اس لیے بر صغیر میں سعودی عرب کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرکے نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق خود چاند دیکھنے اور اُس کے مطابق عبادت کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ بات مسلّمات میں سے ہے کہ چاند کے طلوع ہونے کی جگہ یعنی مطلع مختلف ہوتا ہے، اس وجہ سے برصغیر اور خلیجی ممالک میں عمومی طور پر چاند کی تاریخ میں ایک دن کا فرق رہتا ہے، کبھی کبھی یہ فرق دو دن کا بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں چاند کی ایک ہی تاریخ ہو۔ سعودی عرب میں کیلنڈر کے مطابق آج بروز جمعہ 26 مئی 30 شعبان ہے لیکن حقیقی تاریخ 29 ہے کیونکہ 29 رجب کو کسی بھی جگہ چاند نظر نہیں آیا تھا۔ کیلنڈر میں رجب کا چاند 29 تسلیم کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے احتیاط کے طور پر کل بروز جمعرات کو چاند تودیکھنے کی کوشش کی گئی لیکن سپریم کورٹ نے یہ اعلان نہیں کیا کہ چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے ہفتہ یعنی 27 مئی کو پہلا روزہ ہوگا، بلکہ یہ اعلان کیا گیا کہ بروز جمعہ 26 مئی(جو حقیقی تاریخ کے اعتبار سے 29 شعبان ہے) کو چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے گی اور اُسی کے مطابق اعلان کیا جائے گا۔ سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کی جانب سے یہی خبر شائع ہوئی ہے، لیکن بعض اخباروں اور ویب سائٹوں میں غلط خبر شائع کردی گئی کہ سعودی عرب میں ہفتہ کو پہلا روزہ ہوگا۔ آج بروز جمعہ 26 مئی کو بعد نماز مغرب سپریم کورٹ رمضان کی پہلی تاریخ کے متعلق حتمی فیصلہ کرے گی۔ موسم فلکیات کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ آج رات (بروز جمعہ) چاند نظر آنے کے امکانات بہت قوی ہیں، البتہ ہندوستان اور پاکستان کے ماہرین فلکیات کے اندازہ کے مطابق بر صغیر میں آج رات چاند نظر آنے کی توقعات بہت کم ہیں۔ اس وجہ سے امید کی جارہی ہے کہ خلیجی ممالک میں ہفتہ کو پہلا روزہ اور برصغیر میں اتوار کو پہلا روزہ ہوگا۔
(آمنا سامنا میڈیاگروپ)