نازش ہماقاسمی
ماہ رمضان عربی بارہ مہینوں میں سے ایک مبارک مہینہ ہے اور دین اسلام میں یہ مہینہ عظیم الشان قدرومنزلت رکھتا ہے اور باقی سب مہینوں پراسے بہت سارے خصائص وبرتری حاصل ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس مبارک مہینے کے روزے کو دین اسلام کا چوتھا رکن قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے : شَہْرُ رَمْضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِنَ الْہُدیٰ والْفُرْقَانِ۔ الخ’’ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت کا باعث ہے اور اس میں راہ ہدایت کی واضح نشانیاں ہیں اور فرقان ہے، اس لئے جو کوئی بھی ماہ رمضان کو پا لے تو وہ اس ماہ کے روزے رکھے‘‘۔ (سورۃ البقرۃ185) اور صحیح بخاری اورمسلم میں ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز کی پابندی کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔ او ربیت اللہ کا حج کرنا۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر8صحیح مسلم حدیث نمبر16)۔
رمضان شریف میں امت پر پانچ خصوصی انعامات
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان شریف کے متعلق میری امت کو خاص طو رپرپانچ چیزیں دی گئی ہیں۔ (۱) روزہ دار کے منہ کی بدبو (جو بھوک کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے (۲) ان کے لئے دریا کی مچھلیاں تک دعائِ مغفرت کرتی ہیں، اور افطار تک کرتی رہتی ہیں۔ (۳) جنت ہرروز روزہ داروں کیلئے سجائی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ سبحانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آئیں (۴) اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کردئیے جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں ان برائیوں تک نہیں پہنچ سکیں جن کی طرف غیررمضان میں پہنچ جاتے ہیں (یعنی رمضان المبارک میں شیاطین قید ہونے کی بنا پر روزہ داروں کو گناہوں پر نہیں ابھارسکتے، لیکن انسان کا نفس گناہ کرانے میں شیاطین سے کم نہیں ہے ۔ تاہم پھر بھی گناہوںسے اجتناب کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے اور اس ماہ میں مشاہدہ بھی ہے کہ امت مسلم گناہوں سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہے)۔ (۵) رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا یہ شب مغفرت شب قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ اصول یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت ہی مزدوروی دے دی جاتی ہے۔ (الترغیب والترہیب)۔
رمضان المبارک میں دعاء قبول ہوتی ہے
٭حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رمضان المبارک کی ہرشب وروز میں اللہ کے یہاں سے جہنم کے قیدی چھوڑے جاتے ہیں اور ہرمسلمان کیلئے ہرشب وروز میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے (الترغیب)
٭روایت میں آتا ہے کہ افطار کے وقت کی دعاء قبول کی جاتی ہے۔ (فضائل رمضان20)
٭ حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے کہ جب رمضان آتا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہوجاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب ہوجاتا تھا (فضائل رمضان بحوالہ درمنشور) ویسے بھی دعا کے فضائل قرآن وحدیث میں بے شمار ہیں اللہ تعالی مانگنے والوںسے خوش ہوتے او رنہ مانگنے والوں سے ناراض ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ادعونی استجب لکم تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کو استجب لکم قبول کروں گا۔
لہذا ایسا بابرکت مہینہ جو مہمان کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے اور اس مہینے کی بہت ساری فضیلتیں قرآن واحادیث میں ثابت ہیں تو ہمیں چاہئے کہ خوب گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ اپنے لئے، والدین کیلئے، خصوصاً امت مسلمہ کیلئے کیونکہ امت مسلمہ اس دور میں ہرجگہ ہرملک میں پریشان ہے۔ خواہ وہ مسلم ممالک ہوں یا غیرمسلم ممالک ۔ لہذا امن عالم کیلئے اور مسلمانوں کی فتح وکامرانی کیلئے اس رمضان المبارک کو غنیمت سمجھیں اور دعاء مقبول میں انہیں یاد رکھیں۔ پتہ نہیں ہمارے کتنے مسلمان بھائی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں انہیں ہرطرح کے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہا صرف اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں اور اللہ ورسولﷺ کی بات کرتے ہیں۔ لہذا خصوصی طور پر ان اسیران اسلام کیلئے دعاء کریں اللہ آپ کی دعا کو رائیگاں نہیں جانے دے گا اور ان کی رہائی کے اسباب مہیا کرے گا انشاء اللہ ۔
دعاکے متعلق کچھ ضروری آداب
اللہ تعالی شانہ سے دعا کیلئے اخلاص بہت ضروری ہے، اگر اخلاص نہیں ہوگا تو دعا قبول نہیں ہوگی
دعا کی قبولیت میں جلد بازی نہ کریں اور مایوسی کے شکار نہ ہوں مثلاً یو ں کہنا کہ دعا کرتے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا قبول ہی نہیں ہوتی۔ دعا مانگنے سے پہلے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا (یہ مستحب ہے)۔ دعاء مانگنے کے اول وآخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام بھیجنا (اس سے دعا قبول ہوتی ہے)۔ کسی دعا پر اصرار نہ کریں مثلاً یوں کہنا کہ اے اللہ تجھے میری اس دعا کو قبول کرنا ہی ہوگی۔ دعا کرتے وقت اپنے گناہوں کا اقرار کیجئے اور معافی مانگئے، توبہ کیجئے یہ عمل اللہ کو بہت پسندیدہ ہے ۔
لیلۃ القدر
ماہ مقدس کی راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر کہلاتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی امت پر رب ذوالجلال کی طرف سے ہونے والی خصوصی عنایات میں سے ایک عظیم عنایت ورحمت ہے، قرآن مجید میں اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا چنانچہ ارشاد باری ہے لیلۃ القدر خیرمن الف شہر ۔ شب قدر کی اہمیت کیلئے قرآن کریم میں بیان کردہ مذکورہ فضیلت ہی کافی تھی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی قدرومنزلت بتانے کیلئے متعدد ارشادات فرمائے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جوشخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کیلئے کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں‘‘ (بخاری)۔
(حدیث میں مذکورہ اس جیسی احادیث میں کسی عمل صالح سے گناہوں کی معافی کا ذکر آتا ہے اس سے مراد گناہ صغیرہ ہوتے ہیں اسلئے کہ قرآن کریم میں کبیرہ گناہو ں کی معافی کو توبہ کے ساتھ مقید کیا ہے اسلئے علماء کا اجماع ہے کہ کبیرہ گناہ بغیرتوبہ کے معاف نہیں کئے جاتے اسلئے لیلۃ القدر کی عبادت ہو یا اور کوئی نیک عمل، اس کے فضائل پڑھ کر بلا جھجھک گناہ کرتے جانا اور یہ امید رکھنا کہ یہ سبھی گناہ تو اعمال صالحہ سے معاف ہوہی جائیں گے یہ جہالت ہے، کبیرہ گناہوں سے توبہ کا اہتمام لازم ہے، توبہ کے باوجود اس لغزش وخطا کے پتلے سے صغائر کا صدور ہوتا ہی رہتا ہے، شب قدر کی عبادتوں اور دوسرے اعمال صالحہ سے ان صغائر کی معافی بھی بہت بڑا انعام ہے )۔
رب ذوالجلال نے ہم پر اس قدر احسان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے صدقے ایسا بابرکت مہینہ عطا کیا فرمایا جو سال کے تمام مہینوں میں گلاب کے مانند ہے، اگر ماہ رمضان کو تمام مہینوں کا سردار کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کیونکہ ا س ماہ کے ہر ہر پل او رہر ہرلمحے میں بھلائیاں ہی بھلائیاں ہیں، رحمتوں کی بارش طرح طرح کی پریشانیوں میں بندوں کو نہال کردیتی ہے، بخشش کے بحر بے کنار گناہوں میں لتھڑے ہوئے اجسام کو صاف ستھرا دھو کر نفس امارہ سے نفس مطمئنہ بنادیتے ہیں، رحمت خداوندی اس قدر جوش میں ہوتی ہے کہ سحری وافطاری کے اوقات میں ہزار ہا ہواووسواس کے بندے عبادالرحمان کی صف میں شامل کردئیے جاتے ہیں، ہر ہر عمل کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے نیکیوں اور اجر کے ایسے مہینے میں کون ہوگا جو اپنے رب کی عنایتوں اور لطف وکرم سے بہرورہ نہ ہو؟ کوئی نہیں…
اس مہینے کو تین حصوں میں بانٹا گیا ہے اولہا رحمۃ ثانیہا مغفرۃ ثالثہا عتق من النار
کہ پہلا عشرہ رحمت کا ہے اور دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا وآخری عشرہ اپنی عبادات وریاضت اور اعتکاف سے اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرکے جہنم سے خلاصی کا ہے۔ لہذا ہمارے درمیان یہ ماہ بشکل مہمان موجود ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے پتہ نہیں آئندہ سال ہمیں یہ ماہ نصیب ہوبھی کہ نہیں ……اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس مبارک مہینے کی قدر کی توفیق عطافرمائے، سسکتی امت مسلمہ کی دادرسی فرمائے، ہمارے محروسین بھائی جو یہود ونصاریٰ اور مشرکین کی قید میں ہیں انہیں رہائی نصیب فرمائے آمین ۔
(آمناسامنا میڈیاگروپ)