حکومت ،میڈیا اور عدالتیں

حکومت ،میڈیا اور عدالتیں
 
ممتازمیر
 
   یہ بات کئی بار لکھی جا چکی ہے کہ اس ملک میں کوئی ہندو صد فی صد سیکولر نہیں ہے۔بس سیکولرزم کی بڑی میٹھی میٹھی باتیں کی جاتی ہیںمگر مخلص کوئی نہیں۔مسلمانوں کے لکھاری لکھتے رہتے ہیں کہ یہاں سیکولرزم کا ٹھیکہ مسلمانوں نے اٹھا رکھا ہے ۔مگر اکثر لکھنے والوں کو اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ مسلمانوں نے کیوں سیکولرزم کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔عمومی خیال یہ ہے کہ وہ اقلیت میں ہیں کمزور ہیںاسلئے ڈر کر سیکولزرم کی لاش ڈھوتے پھرتے ہیں،مگر یہ خیال درست نہیں۔مسلمان مجبور ضرور ہیں مگر حالات سے نہیں اپنے دین سے۔مثال کے طور پر ان کا دین انھیں غیروں کے معبودوں کی توہین کرنے کی ،برے القاب سے مخاطب کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔یہ اسی حکم کا طفیل ہے کہ آج تک کسی مسلمان نے رام،سیتا کرشن یا ارجن کی توہین کرنے کی کوشش نہیں کی اور اس کے باوجود نہ کی کہ خود ہندو اپنے بھگوانوں کی توہین کرتے رہتے ہیں۔بڑی مشہور بات ہے کہ شمالی ہند میں راون کا پتلا جلایا جاتا ہے تو جنوبی ہند میں رام کا ۔خیر ہم واپس سیکولرزم کی طرف لوٹتے ہیں ۔ تو مسلمان مجبور ہیں تو کسی ڈر اور خوف سے نہیںاپنے اللہ کے حکم سے مجبور ہیں۔اللہ قرآن میں فرماتا ہے ’’لکم دینکم ولی یدین‘‘یہ ایک چھوٹی سی آیت دوسرے دین والوں کے تعلق سے مسلمانوں کا رویہ طے کرتی ہے،اور سب کو کرتی ہے ،ملا کو بھی اور مجاہد کو بھی۔ان بچوں سے بھی پوچھ دیکھیں جنھوں نے کنہیا لال کو قتل کیا ہے کہ کیا تم رام کرشن سیتا کو گالیاں دے سکتے ہو ۔گالیاں دینا قتل کرنے سے آسان کام ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کے لوگ بھی شاتم رسول کو قتل تو کرسکتے ہیں دوسرے مذہب کی قابل احترام شخصیات کو گالیاں نہیں دے سکتے ۔ وہ مسلمان جو اپنے آپ کوسیکولر ثابت کرنے کی ہوڑ میں ہر حد سے گزر رہے ہیں خود سوچیں کے قتل زیادہ بڑا فتنہ ہے یا توہین رسالت ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود سپریم کورٹ یہ مان رہی ہے کہ نپور شرما کی بکواس فی الوقت وطن عزیز کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔کتنی دلچسپ بات ہے کہ نہ کنہیا لال کا قتل نہ موب لنچنگ کے مقتولین نہ ریاستوں میں ہارس ٹریڈنگ نہ جمہوریت کا قتل سپریم کورٹ کے نزدیک ہلاکت خیز ہے ۔مگر مسلمان بزدلوں کے نزدیک صرف کنہیا لال کا قتل ہلاکت خیز ہے ۔آخر اس صورتحال کی وجہ کیا ہے؟ہمارے نزدیک وجہ وہی ہے جو حضرت عمرؓ کے واقعے میں ملتی ہے ۔ہمارے نزدیک ہماری جان کیا ہمارے اہل وعیال زمین جائداد رسول ﷺ سے زیادہ پیارے ہیں ۔ہم کہتے نہیں نہ بتاتے ہیں کہ ہمیں دنیا رسول اور اسکے دین سے زیادہ پیاری ہے ۔اور اس صورتحال کی نشاندہی حضور ﷺ نے ۱۴۰۰ سال پہلے یہ کہہ کر کردی تھی کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہے میری امت کا فتنہ مال ہے۔
   درج بالا تمام باتیں ہمارے ذہن میں اس وقت گونج گئیںجب ہم نے کل رات (یکم جولائی)این ڈی ٹی وی اینکر جناب سانکیت اپادھیائے کو یہ کہتے سنا کہ اب ہم مقتول کنہیا لال کے اہل خانہ سے اس کٹرتا fanaticismکے بارے میں بات کریں گے۔NDTV وطن عزیز میں مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ مقبول چینل ہے ۔کہا جا سکتا ہے ٹی وی دیکھنے والا ہر مسلمان این ڈی ٹی وی دیکھتا ہی ہوگا ۔ ایسے ٹی وی چینل کا اینکر رد عمل کو کٹرتا کہہ رہا ہے اور عمل کو کچھ نہیں۔کیا رسول اکرم ﷺکی شان میں گستاخانہ کلمات کٹرتا کہ بغیر ممکن ہیں؟کیا ہندوستان کے مسلمانوں نے وطن کی تاریخ میں عام یا خاص حالات میں یہاں تک کہ بابری مسجد کی شہادت کے حالات میں بھی کسی ہندو یا کسی غیر مسلم کی موب لنچنگ کی ہے ؟یا مذہبی شخصیات کے خلاف گستاخانہ ریمارکس دیئے ہیں؟جبکہ ہندو ہوں یا عیسائی یا اور کمیونٹی ،وہ مسلسل مسلمانوں کی مذہبی شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں ۔اس کے باوجود ہمارا میڈیا مسلمانوں کو ہی extrimist  اور غیر مہذب گردانتا ہے اور عملا انتہا پسندی اور بدتہذیبی کا ثبوت دینے والوں کو سر پر بٹھاتے نہیں تھکتا۔یہ نا انصافی ، جانبداری ،اندھاپن جن حالات کو جنم دے سکتے ہیں وہی آج ہمارے وطن کے ہیں۔
   اب آئیے عدالت عظمیٰ کی بات بھی کرلیں۔وہ بات جس پہ تمام مسلمان بغلیں بجا رہے ہیں اس کا سپریم کورٹ کے آرڈر میں کہیں ذکر نہیں۔ آرڈر جو کچھ بھی ہے بس اتنا ہے۔درخواست گزار کے قابل وکیل کوسننے کے بعد کورٹ درخواست گزار (یعنی نپور شرما)کو اپنی درخواست واپس لینے کی اجازت دیتی ہے اور قانون میں موجود متبادل ذرائع اختیار کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔یہ کہہ کر کورٹ نے رٹ پٹیشن خارج کردی۔یعنی وہ بات جس پر بغلیں بجائی جارہی ہیں اس کا سارے فسانے میں کہیں ذکر ہی نہیں۔ یعنی جو کچھ بھی ہے وہ زبانی جمع خرچ ہے۔سوال یہ ہے کہ کورٹ نے زبانی جمع خرچ بھی کیوں کی ؟اس کا بڑا اچھا جواب ہمارے ایک دوست نے دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے اجتماعی ضمیر کے اطمینان کے لئے مسلسل کئی فیصلے ’لکھنے‘ کے بعدہمارے منصفین کو شرم آگئی ۔تو انھوں نے سوچاکہ مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کے اطمینان کے لئے بھی کچھ ’بول‘ دیا جائے ۔بس ساری کہانی اتنی ہے۔یہ تو ہمیں سمجھنا ہے کہ جو لوگ سارے دستور ہی کو کوڑے دان کی نظر کئے ہوئے ہیںوہ ججوں کے بول بچن کی کیا پرواہ کریں گے۔فی الوقت ہماری عدالتوں کی جو حالت ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا میں Blasphemy law  کا وجود ہی نہیں۔اور کیوں ہو اس قانون کا ریکارڈ دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بھی دنیا بھر کے عوام کے اجتماعی ضمیر کے اطمینان کے لئے بس بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔کبھی عدالتیں کمزور بے بس لاچار عوام کی آخری امید ہوا کرتی تھی مگر آج ،آج یہ سوائے مسلم پرسنل بورڈ کے کسی کی آخری امید نہیں۔
   تاریخ کا شعور ،اس کی اہمیت عوام کے لئے نہیں دانشوروں کے لئے ’’Learned ‘‘لوگوں کے لئے ہوتی ہے ۔مگر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا پورا جیوڈیشیل سسٹم جاہل ہو گیا ہے یا پھر ان کا مطمع نظر یہ ہو گیا ہے کہ تاریخ کی ایسی تیسی ،ابھی تو بس جان مال عزت آبرو بچا لے جاؤ۔بہرحال آج جان و مال ،عزت آبرو کو بچا کر ملک کا جو حال وہ کررہے ہیں اس کا خمیازہ ان کی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا