سپریم کورٹ کے تبصرے سے مرچی کیوں لگی جناب؟؟؟
تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
پرنسپل: دارالعلوم رضویہ ضیاء العلوم، پرساں گولا بازار گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیا
گزشتہ دنوں صوبہ راجستھان کے ضلع اودے پور میں ایک دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا جہاں دو نوجوانوں نے ایک درزی پر قاتلانہ حملہ کرکے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور انھوں نے اس کا ویڈیو بھی بنا کر وائرل کردیا جس میں ان لوگوں نے قتل کی وجہ چند ہفتوں پہلے ٹی۔وی۔ ڈیبیٹ پر پیغمبر اعظم کی شان میں گستاخی کرنے والی نوپور شرما کی حمایت بتائی تھی۔ اس واقعہ سے پورا ملک حیران و ششدر ہوگیا اور ملک بھر میں اس کی خوب مذمت کی گئی اور کرنی بھی چاہیئے کہ کیوں کہ ایسے واقعوں کا مذہب اسلام سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ دنیا کا کوئی بھی امن پسند طبقہ ایسے واقعات کی اجازت نہیں دیتا پھر مذہب اسلام تو سراپا امن و امان کا مذہب ہے وہ کیوں کہ ایسے واقعوں کی اجازت دے گا۔ مگر کچھ فرقہ پرست عناصر نے اسے اپنے لیے موقع غنیمت تصور کرتے ہوئے ایک طبقہ خاص(مسلمانوں) کو ہراساں کرنے لگے، ان کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرنے کے لیے ریلیاں نکالیں اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی ماحول کو خراب کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کی مگر مسلمانوں نے موقع کی نزاکت کے پیش نظر صبر و تحمل سے کام لیا۔ خیر واقعہ کے چھ گھنٹوں کے اندر ہی دونوں ملزمان کی گرفتاری عمل میں آگئی اور اب کورٹ نے انھیں پولیس کسٹڈی میں دے دیا۔ یقینا یہ واقعہ بہت ہی افسوس ناک تھا جو کسی بھی صورت پیش نہیں آنا چاہیئے تھا۔ اس واقعہ کے مجرموں کی سزا بھی یقینا درست ہے مگر اس کے پیچھے کی وجوہات سے قطع نظر کرنا ناقابل قبول ہے کہ جس سے ایسے ناخوش گوار واقعات کے اصل محرکین مستقبل میں مزید آگ لگانے کا کام کرتے نظر آئیں اس لیے اس واقعہ کی اصل وجہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ آخر اتنا بڑا حادثہ وقع پزیر کیوں کر ہوا؟؟؟
دراصل ہمارے ملک میں فرقہ پرست طاقتیں شروع ہی سے فتنہ فساد پھیلا کر اپنا سیاسی الو سیدھا کرنے کی تاک میں لگی رہتی ہیں، گزشتہ ایک دہائی سے تو اس مہم نے ایسا زور پکڑ لیا ہے کہ کبھی ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے والے اور ایک دوسرے کے سکھ-دکھ میں ساتھ کھڑے ہونے والے پڑوسی بھی آج ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ خاص کر ان فرقہ پرست طاقتوں نے ملک کی اکثریتی طبقہ کو کچھ اس طرح ورغلایا ہے کہ انھیں ملک کا اقلیتی طبقہ(مسلمان) ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا۔ (سوائے چند سوجھ بوجھ والے لوگوں کے جو ان کی چالوں سے واقف ہیں) وہ نہ تو معاملہ کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی یہ دیکھتے ہیں کہ غلطی کس کی ہے بس مسلمانوں کے خلاف جو بھی کھڑا ہو پھر چاہے وہ کتنا ہی بڑا مجرم بھی کیوں نا ہو اس کی حمایت میں نکل آتے ہیں، جس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں؛ بے قصور مسلمانوں کی مآب لنچنگ کرنے والی بھیڑ کی حمایت ہو یا ملک کے قدآور سیاسی رہنما ’سانسد رتن‘ اسدالدین اویسی پر قاتلانہ حملہ کرنے والے مجرموں کی حمایت ہو یا پھر مسلمانوں کو زدوکوب کرنے کی وجہ سے جیل کی سزا کاٹنے کے بعد باہر نکلنے والے مجرموں کا پھول مالاؤں سے استقبال کرنا ہو، یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جو نفرت کی چنگاری کو ہوا دے کر فتنہ و فساد کا ایسا تلاطم خیز طوفان پبا کردیتے ہیں جس پر قابو پانا بڑا مشکل ہوجاتا ہے اور یوں ملک کا امن و سکون غارت میں پڑ جاتا ہے۔ اسی بے جا حمایت اور نفرتی پروپیگنڈہ کی جیتی جاگتی تصویر ہم نے اودے پور کے واقعہ میں دیکھی جہاں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرنے والی نوپورشرما کی بے جا حمایت ’کنہیالال‘ نامی شخص کربیٹھا اور دو مسلم نوجوان فرقہ پرستوں کی اسی نفرتی پروپیگنڈہ کے شکار ہوگئے اور جنون میں آکر اس کا قتل کردیا اور خود سلاخوں کے پیچھے چلے گئے اور جلد ہی سزاے موت بھی پاجائیں گے مگر جنھوں نے یہ نفرتی پروپیگنڈہ تشکیل دی وہ کھلے عام گھوم رہے ہیں اور اس کو ”ہندو-مسلم“ مدعی بناکر اپنی سیاسی روٹی سینک رہے ہیں۔
یہی بات ملک سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے گستاخ رسول نوپور شرما کے مقدمہ کی سماعت کے دوران کہی؛ عدالت نے تبصرہ کیا کہ ملک میں جو بدامنی پھیلی ہوئی ہے اس کی تنہا ذمہ دارنوپورشرما ہے، ساتھ ہی اودے پور کے واقعہ کا صراحۃً ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اودے پور واقعہ کی بھی ذمہ دار نوپورشرما ہی ہے، عدالت نے مزید تبصرہ کیا کہ نوپورشرما کو پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے!علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے گستاخی کے معاملہ میں دہلی پولیس پر بھی سوال اٹھائے کہ اس نے ایف۔آئی۔آر۔ درج کر کارروائی کیوں نہیں کی؟۔ حالاں کہ سپریم کورٹ نے فقط تبصرہ کیا ہے نہ کہ فیصلہ سنایا ہے، جبکہ سپریم کورٹ کو اس معاملہ میں نوپورشرما کے خلاف سخت کارروائی کا حکم نافذ کرنے سے ہی نفرت کی ٹھیکے داری پر روک لگایا جاسکتا ہے۔ مگر سپریم کورٹ کا فقط تبصرہ کرنے سے بھی کچھ لوگوں کو مرچی لگنے لگی؛ ابھی کل میں نے ایک ہندی اخبار میں ایک آرٹیکل(مضمون) پڑھا جس کے لکھنے والے(لیکھک) کا نام غائب تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا ایسا تبصرہ کرنا درست نہیں ایسا کرنے سے اودے پور جیسے واقعات مزید رونما ہوں گے۔ کچھ اسی طرح کے تبصرے سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے کو ملے جن میں سپریم کورٹ کے ان تبصروں پر انگشت نمائی کی گئی تھی۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے ان تبصروں کی شکایت اعلیٰ ججوں سے کردی گئی، اور بات یہ بنائی جارہی ہے کہ کورٹ کے تبصروں سے اودے پور جیسے واقعات کو بڑھاوا ملے گا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نوپورشرما جیسے لوگوں پر لگام نہ لگانے سے ملک کا امن و سکون غارت میں پڑا ہے اور مستقبل میں بھی اس کے وسیع امکانات ہیں۔ لہذا عدالت عظمیٰ کو چاہیئے کہ نوپورشرما جیسے لوگوں کے بارے میں فقط زبانی تبصرہ نہ کرے بلکہ جلد از جلد سخت کارروائی کے احکام نافذ کرے تاکہ ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہوسکے