ممبئی: اسکولی طلباء کے لئے موبائل لائبریری کا قیام

طلباء کو کتابوں سے قریب کرنےکا محمد اسلم سر کا مثالی قدم
اقبال انصاری
جہاں کہیں دو چار کتابوں کے شوقین جمع ہوتے ہیں نئی نسل کی کتابوں سے دوری کے رجحان پر فکر مندی اور تشویش کا اظہار کرنے لگتے ہیں اور ان کے چہروں سے مایوسی ٹپکنے لگتی ہے۔ کتابوں کا ذکر چھڑتے ہی یار رہنے دو ’یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی‘ جیسے اشعار ان کی زبانوں سے بے ساختہ نکل پڑتے ہیں۔ لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ ہم مسائل بیان کرتے ہوئے ان کے حل کے بارے میں بھی سوچتے ہوں۔ اگر ہم صرف مسائل کا رونا روتے رہیں اور کتابوں سے لوگوں کی بے نیازی کے قصے سنا سنا کر مایوسی میں اضافہ کرتے رہیں تو یہ دیانت داری کے خلاف بات ہو گی۔ ہماری کتاب دوستی کا تقاضا ہے کہ ہم کوشش کریں کہ لوگوں کو پڑھنے لکھنے سے قریب کیا جائے اور اس کے لیے نئے نئے طریقے اپنائے جائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگ اپنے پیٹ کی فکر زیادہ کرتے ہیں لیکن اپنی روحانی غذا یعنی مطالعہ کی فکر بالکل نہیں کرتے۔ آج ہم آپ کو کتابوں کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کے ایک انوکھے انداز سے روشناس کروائیں گے۔ ریاست مہا راشٹر کے ممبئ شہر کے ایک نوجوان معلم محمد اسلم نے کتابوں سے دور نئی نسل کے لیے ایک انوکھا قدم اٹھایا ہے۔ ان کا یہ اقدام ان طلباء کے لیے زیادہ مفید ہے جو لائبریری میں جانے سے کتراتے ہیں۔ محمد اسلم نے اپنے قلیل سرمایہ کے ساتھ اپنے ہی اسکول کی کلاس میں ایک ایسا کتب خانہ تیار کیا ہے جہاں کتابوں کیساتھ مختلف رسالوں کا بھی مجموعہ موجود ہیں۔ آپ کو کتاب کے مطالعہ میں یکسوئی کے لیے مختلف انعامی کتابی مقابلے بھی منعقد کیے ۔


در اصل قوموں کی ترقی و عروج کی ساری کہانیوں کی بنیاد علم و تحقیق ہوتی ہے۔ اگر ہماری نسل، جسے کتابوں سے استفادے کی ضرورت دوسری تمام اقوام سے کہیں زیادہ ہے تو پھر کتابوں سے اس کی بے نیازی اسے مستقبل میں بہت رلائے گی۔
عموما یہ کہا جاتا ہے کہ آج لوگ کتابیں نہیں پڑھتے لیکن محمد اسلم کا کہنا ہے کہ اگر یہ دعوی درست ہوتا تو جو بڑے بڑے اشاعتی ادارے ہیں وہ بند ہو چکے ہوتے یا کتابیں شائع کرنا بند کر دیتے۔ چونکہ اسکول مکمل طور پر جاری نہیں ہوئے ہیں اس لیے طلبا کم آ رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ طلبا اس میں ضرور دلچسپی لیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی لائبریری میں کونسی زبان کی کتابیں ہیں تو انہوں نے کہا کہ ابھی فی الوقت ان کی لائبریری میں اردو، ہندی، انگریزی اور مراٹھی زبانوں میں کتابیں ہیں اور بعد میں وہ اس کے کلکشن میں مزید اضافہ کریں گے۔
لائبریریوں کے لیے سرکاری اسکیمیں بھی ہوتی ہیں۔ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے تعاون سے بھی کچھ کتابیں حاصل کی گئی ہیں۔
محمد اسلم سر کے اس اقدام سے متاثر ہو کر AIITA پالگھر نے بھی اس کام کو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس تصور سے لوگ متاثر ہو کر دوسری جگہوں پر بھی اس پر کام کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں۔ لوگ اس طریقہ کو اختیار کر کے لائبریری کے قیام کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
محمد اسلم سر نے اپنی میگزین اور موبائل لائبریری سے طلباء کو قریب کرنے کے لیے اور بھی آئیڈیاز پر کام کر رہے ہیں۔
اس لائبریری کے قیام کا مقصد صرف اور صرف پڑھنے کے رجحان کو فروغ دینا ہے اور اس کلچر کو عام کرنا ہے۔ جب کتابوں سے تعلق پیدا ہو گا تب پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو گی تبھی لٹریچر کے ذریعہ ہم سماج میں بڑی تبدیلی لا سکیں گے، اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے کہ جب لوگ کتابوں سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ اگر لوگوں کا تعاون ملا تو وہ اس کام کو اور بہتر انداز میں کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ سماج میں پڑھنے پڑھانے کا ماحول بنے اور کتابوں کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھے۔