شہریت کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے , وحدت اسلامی

شہریت کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے , وحدت اسلامی

بمبئی: مرکزی حکومت کی جانب سے شہریت ایکٹ 1955 کو بنیاد بنا کر ایک نوٹیفیکیشن شائع کیا گیا ہے جس میں 13 اضلاع میں پڑوسی ممالک کی اقلیتوں کو شہریت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اقلیتوں میں صرف ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائی اقلیتیں ہی کے لوگوں کو اس سلسلے میں شامل کیا گیا ہے۔ جوائنٹ سیکرٹری یا کلکٹر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مطمئن ہو تو ان لوگوں کو متعلقہ شہروں میں شہریت دی جا سکتی ہے۔
پہلے یہ کہ 1955 شہریت ایکٹ کے تحت شہریت دینے کے لئے ذات پات یا مذہب کی کوئی تخصیص نہیں کی جا سکتی ہے۔ CAAجو اس سلسلے میں ترمیم کا درجہ رکھتا ہے ،اس کی تفصیلات ابھی تک طےنہیں ہوئی ہیں۔ اس کا مسئلہ بھی عدالت کی دہلیز پر پڑا ہوا ہے۔ موجودہ شہریت ایکٹ 1955 کی بنیاد پر پر ایسا کوئی حکم نامہ مرکزی حکومت نکالنے کا قانونی حق نہیں رکھتی ،کیونکہ بنیادی طور پر یہ دستور کے بنیادی حقوق کے خلاف پڑتا ہے ۔وحدت اسلامی ہند کے سیکریٹری جنرل جناب ضیاء الدین صدیقی صاحب نے نوٹیفیکیشن کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور دستور کے بنیادی حقوق کے خلاف ہونے کی وجہ سے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے ۔عوام سے اپیل کی ہے کہ اسے عدالت میں چیلنج کیا جائے۔
ملک مہاماری کی مار سے ابھی جھوج رہا ہے اور حکومت کو ایسے قانون کو نافذ کرنے کی جلدی پڑی ہے جس پر اختلاف رائے بڑی تعداد میں موجود ہے۔ ملک کی ایک بڑی اقلیت کے بنیادی حقوق کو پامال کرکے اس قانون کو نافذ کرنے کی کوشش سیدھے سیدھے ہندوتوا ایجنڈے کا نفاذ ہے۔ ابھی کسانوں کے لیے بنائے گئے 3 قوانین کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے، CAA, NRC اور NPR جیسے معاملات پر شاہین باغ کی پوری تحریک گواہی دے رہی ہے کہ ان قوانین کو اب ٹھنڈے بستے میں ڈال دینا چاہیے، لیکن پلٹ پلٹ کر انہی معاملات پر توجہ سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔
کشمیر سے لے کر لکشدیپ تک جس طرح سے قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے نفرت اور سیاست کی خو آتی ہے۔ آسام، بنگال اور یوپی کی صورتحال نے حکومت کے اصلی چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں قفل بندی کا ناجائز فائدہ فائدہ اٹھا کرحکومت ایسی پالیسیوں کو انجام تک پہنچارہی ہے۔ اس لئے جناب ضیاء الدین صدیقی صاحب نے اپیل کی ہے کہ عوام بالخصوص مسلمان بیدار ہو اپنے حقوق کی انصاف کے ساتھ لڑائی لڑیں، ایمان، اتحاد اور استقامت کے ساتھ مزاحمت کے ذریعے ہی ایسے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔