اترپردیش اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی پارٹیوں کی صورتِ حال کے متعلق ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول صاحب کا اظہارِ خیال
اترپردیش اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی پارٹیوں کی صورتِ حال کے متعلق ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول صاحب کا ایک گروپ میں ایک سوال کے تناظر میں اظہارِ خیال
ویلفیئر پارٹی نے یوپی کے لئے منصوبہ بندی کی ہے ۔
۱-اس نے ان حلقہ انتخابات کو short list کرلیا ہے جہان سے اسے خود الیکشن لڑنا ہے۔
اس کے بعد وہ مسلم قیادت والی پارٹیوں سے بات کررہی ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ ان کے درمیاں آپس میں کوئی ٹکراؤ نہ ہو۔
۳- سیکولر سیاسی پارٹیوں کے ذمہ داروں کے ساتھ بات کی جائے گی تاکہ ان کے درمیاں مفاہمت کی شکل نکلے اور پھر ان کی مسلم قیادت والی پارٹیوں کے ساتھ تال میل اور مفاہمت کی کوئی شکل نکل پائے۔
۴- میری ایک تفصیلی ملاقات سماج وادی پارٹی کے صدر اکھیلیش یادو سے ہوچکی ہے۔ ان سے بہت صاف اور دو ٹوک بات ہوئی ہے۔
۵- یوپی میں اس وقت بی جے پی سے لوگ بری طرح ناراض ہیں۔ لیکن دوسری طرف سیکولر پارٹیوں میں بھی کوئی مفاہمت نہیں ہے۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن پارٹی کا اتحاد ختم ہو کا ہے۔ بی ایس پی نے صاف کردیا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ کانگریس کا بھی یہی موقف ہے۔ تھوڑا بہت کیڈر سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کے پاس ہے۔ کانگریس کے پاس نہ تنظیمی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی ہی کیڈر لیکن لیڈرشپ کی سطح پر تھوڑی بہت ہلچل نظر آتی ہے۔
۶- مغربی اتر پردیش میں کسانوں کے agitation کی وجہ سے جاٹ بی جے پی سے دور ہوچکے ہیں، اس بات کا امکان ہے کہ اجیت سنگھ کی پارٹی کو پھر سے ان کی حمایت حاصل ہوجائے۔ لیکن اجیت کی سنگھ کی حال ہی میں موت ہوچکی ہے ان کے بیٹے جینت سنگھ ابھی نا تجربہ کا ر ہیں۔
۷- مسلم جماعتوں اور قیادت کے درمیاں الیکشن کو لے کر نہ تو کوئی تال میل ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔ سب جماعتوں کی ترجیحات بھی الگ الگ ہیں۔ جماعت کے علاوہ کوئی الیکشن میں کام بھی نہیں کرتا ہے۔
۸۔ اترپردیش میں جماعت دو الگ الگ حلقوں میں منقسم ہے۔ ہمارے روایتی طریقہ سے کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ابھی بہت کم وقت باقی بچا ہے۔ اگر کوئی نتیجہ نکالنا ہے تو اسی وقت سے کام شروع کرنا پڑے گا۔
۹۔ پہلے مرحلے میں ان حلقہ ہائے انتخابات کی منصوبہ بندی کرنی پڑے گی جہان مسلمانوں کی آبادی ۲۵ فیصد سے زائد ہے۔
۱۰ ۔ مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم سے بچانے کے مسلمانوں کی تمام تنظیموں کے درمیان تال میل کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی بنانی ہوگی۔
۱۱- دلت اور او بی سی کو بی جے پی سے الگ کرنے کی ضرورت ہوگی۔
۱۲- ھندوؤں کے انصاف پسند افراد کو ساتھ لے کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنانی ہوگی۔
۱۳-مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مضبوط افراد کو ساتھ لے کر تما م سیکولر پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے پوری طاقت لگانی ہوگی۔
۱۴- اس بات کا اندیشہ ہے کہ بی جے پی بنگال کی طرح یہان بھی پوری طاقت سے کمیونل کارڈ کھیلے گی۔ اس کے تدارک کے لئے بہت مضبوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔
۱۵- مسلمانوں کی جانب سے ردعمل کو روکنا ہوگا۔ ایک اندیشہ مجلس سے ہے ۔ اس کے بارے میں کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہوگی۔
۱۶۔ مسلم اکثریت والے حلقوں میں ووٹ کو تقسیم ہونے سے روکنا بے حد ضروری ہوگا۔ بالعموم مسلم ووٹوں کے انتشار کا فائدہ ہمیشہ بی جے پی کو ہی ہوتا ہے۔
۱۷۔ ہماری اس الیکشن میں ہر ممکن یہ کوشش ہونی چاہیے کہ مسلم قیادت والی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے لازما کچھ لوگ تو ضرور ہی منتخب ہوکر جائیں۔
چونکہ احباب کی خواہش تھی کہ اس اشو پر میں بھی اظہار خیال کروں اس لئے کچھ عمومی باتیں لکھ دی ہیں۔ تفصیلی حکمت عملی کا یہاں اظہار خیال مناسب نہیں ہے۔