افسانچہ ابابیل
از مہتاب قدر
مظلوموں کی آہ وبکا، بچوں اور عورتوں کی المناک چیخیں زمیں کودہلاتی ، میزائلوں کی گھن گرج، راکٹوں کی بے ہنگم آوازوں کو چیرٹی ہوئی در افلاک پر دستک دینے لگیں ۔
فرشتے کہنے لگے کہاں گئےاس غیرتمند معتصم باللہ کے بیٹے جس نے ایک بہن کی آواز پر اس کی عزت سے کھلواڑ کرنے والوں کو سزا دینے کیلئے اسی ہزار کا لشکر بھیج دیا تھا ۔ کہاں گئے وہ جیالے جنہیں شکست کی خبر پر گھر سے نکلنے کے لئے ایک رات کی دلہن بھی نہیں روک سکی تھی۔ کہاں گئے صلاح الدیں کے جانشین جنہیں رات دن خدا کے گھر کی بازیابی کی فکر چین سے رہنے نہیں دیتی تھی ۔
حکم ہوا ابابیلوں کے لشکر بھیج دئیے جائیں ، ابابیلوں نے التجا کی اے ہمارے رب ہمیں اس بار اجازت دے ہم ان پر پتھر برسائیں جن کی فوجوں کے دست وپا بے عملی کی وجہ سے شل ہوگئے اور انکے سردار بزدل ہوگئے ہیں ۔ جن کی توپوں کے دہانے خشک حلق کی پیاس بن کر دشمنوں کے لہو کوترس رہی ہیں ، اس بار یہ لشکر ان بے حس بے غیرت نامی گرامی قوم پرستوں پر اتارے جائیں جو ‘ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأرْضِ ” کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے اور خواب غفلت سے کوئی منظر بھی انہیں جگا نہیں سکتا۔
جانے کیوں آج شفق زدہ شام کے خونی ماحول میں چہچہاتے پرندے بھی یہی کہہ رہے ہیں
اے موجِ بلا! ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارا کرتے ہیں
ایسے میں ، میں نے سر سجدہ میں رکھا اور پھر ایک کمزور سا نالہ نیم شب آسمان کی طرف بڑھنے لگا ،
اے خدا ہم پر رحم فرما ہمیں معاف فرما کہ ہم بے سروسامان ہیں ۔ کم حوصلہ اور بزدل ہیں وھن نے ہمارے دلوں کو جکڑ رکھا ہے۔ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اس بے بسی سے نکال تاکہ ہم بھی تیری راہ میں تیری دی ہوئی جان اور مال لگا کر کہہ سکیں کہ
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
پھر یوں ہوا کہ
ندامت کے آنسوؤں کو شرف قبولیت سے نوازا گیا
اور پھر ابابیلوں کا رخ بدلا اور وہ دشمنوں کے خیموں کی طرف بڑھنے لگے۔