ہم اور ہمارا معاشرہ

ہم اور ہمارا معاشرہ
مضمون نگار : مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری

افراد کے ایک ایسے گروہ کو معاشرہ کہا جاتا ہے کہ جسکی بنیادی ضروریاتِ زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں اور معاشرے کی تعریف کے مطابق یہ لازمی نہیں کہ انکا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب سے ہو۔ جب کسی خاص قوم یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پھر عام طور پر اسکا نام معاشرے کے ساتھ اضافہ کردیا جاتا ہے جیسے ہندوستانی معاشرہ ، مغربی معاشرہ یا اسلامی معاشرہ۔ اسلام میں مشترکہ بنیادی ضروریات زندگی کہ اس تصور کو مزید بڑھا کر بھائی چارے اور فلاح و بہبود کے معاشرے کا قرآنی تصور، ایک ایسا تصور ہے کہ جس کے مقابل معاشرے کی تمام لغاتی تعریفیں اپنی چمک کھو دیتی ہیں۔ قرآن کی سورۃ آل عمران میں آیت ١١٠ میں اسی تصور کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے کہ معاشرہ کیا ہے یا کیا ہونا چاہیۓ، ترجمہ :- تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو. اس قرآنی تصور سے ایک ایسا معاشرہ بنانے کی جانب راہ کھلتی ہے کہ جہاں معاشرے کے بنیادی تصور کے مطابق تمام افراد کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر ہوں اور ذہنی آزادی بھی۔ اور کسی بھی انسانی معاشرے کو اس وقت تک ایک اچھا معاشرہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب تک اس کے ہر فرد کو مساوی انسان نہ سمجھا جاۓ، اور ایک کمزور کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہوں جو ایک طاقتور کے پاس ہوں، خواہ یہ کمزوری طبیعی ہو یا مالیاتی یا کسی اور قسم کی.
قرآن کریم میں ارشاد الہی ہوتا ہے : خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے انسان سے گھر بنتا ہے اور گھر سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے. انسان کا کردار اس کی فکر پر منحصر ہوتاہے. انسان ایک معاشرہ تشکیل دیتا ہے . جب ایک شخص پیدا ہوتا ہے تو نہ وہ پیدائشی طور پر شریف ہوتا ہے اور نہ ہی مجرم بلکہ اس کے ایک اچھے انسان بننے اور مجرم بننے میں یہ معاشرہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچہ اگر ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو جس جگہ کے افراد پڑھے لکھے، با شعور اور با اخلاق ہوں تو فطری طور پر وہ بچہ اچھے اخلاق کا مالک ہوگا. ایک اچھا انسان بنے گا لیکن اس کے برعکس اگر ایک بچہ ایسے معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے جس جگہ کے لوگ بے شعور، بد اخلاق اور ان پڑھ  ہوں تو یہ باتیں بچے پر منفی اثرات مرتب ضرور کریں گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر وہ معاشرہ مختلف طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو تو یہ سب باتیں چھوٹی چھوٹی برائیوں سے برے کاموں کی طرف لے جاتی ہیں اور ایک اچھے بھلے انسان کو مجرم بنا دیتی ہیں. اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پر سکون ہو اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہو تو ہمیں سب سے پہلے اپنے نفس کو ٹھیک کرنا ہوگا اور دوسروں کے اندار عیب تلاش کرنے کے بجائے خود اپنے آپ کو بے عیب کرنا ہوگا کیونکہ اچھا معاشرہ بہترین انسانوں سے ہی تشکیل پاتا ہے۔                           
ہر قوم کی قوت و طاقت ایک اچھا اخلاق و کردار ہوا کرتی ہیں اور اس کی عظمت و سر بلندی کی تاریخ اسی سے رقم ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اخلاق پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میں اخلاق کی تکمیل کے لئے خدا کی جانب سے دنیا میں بھیجا گیا ہوں مگر افسوس کہ مسلمان رفتہ رفتہ اپنی تہذیب وثقافت بھول گئے اور مذہب سے دوری کے ساتھ ساتھ بے راہ روی کا شکار ہوگئے اور اسلام کی دعوت و تربیت کو فراموش کرگئے۔ جس کی وجہ سے ان میں اخلاقی زوال، بے شرمی و بے حیائی ,جھوٹ و چغلخوری, فریب, غرور و تکبر سرایت کر گئے اور اس طرح دنیا کو تہذیب و تمدن کا درس دینے والی قوم خود غیر مہذب ہو کر رہ گئی۔ دوسری قوموں کو اپنے عمدہ اخلاق و کردار اور حسن سلوک سے زیر کرنے والی قوم آج خود ان اوصاف سے بداخل ہو کر رہ گئی ہے۔ اسلام دینی احکامات کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار سازی، مساوات و بھائی چارگی، امانتداری و رواداری کا درس دیتا ہے۔ بد دیانتی اور رشوت خوری سے روکتا ہے تا کہ عزت و شرف کا تاج ان کے سر پر برقرار رہے۔ کسب حلال، صلہ رحمی، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک اور حق گوئی کی تلقین کی گئی۔ دین کا جزء ہونے کی وجہ سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے پڑوسیوں کی حق تلفی کرنے والے کے ایمان کی نفی کی ہے۔
لہذا مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے اور انہی خود فیصلہ کرنا پڑے گا کہ نماز کی پابندی کے ساتھ لوگوں کے ساتھ بد سلوکی، حج بیت اللہ کی سعادت و ادائیگی کے ساتھ سود و رشوت, پڑوسیوں یا دیگر حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی، زبان پر تسبیح پروردگار سے زیادہ گالی اور غیبت؟  کیا یہ ایمان کی علامت ہے؟ اسلام میں غیبت سے منع کیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ اس قدر سخت تاکید کے باوجود مسلمانوں میں یہ برائی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ جھوٹ تو اس طرح بولتے ہیں جیسے ان سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ جب کہ اسلام میں جھوٹ کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ وعدہ خلافی مسلمانوں کے یہاں کوئی عیب نہیں جب کہ پیغمبر اسلام (ص)  نے وعدہ خلافی کو منافقوں کی پہچان میں سے ایک قرار دیا ہے۔ آج مسلم معاشرے میں متعدد اخلاقی کمزوریوں کے ساتھ بے شمار برائیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ خیانت، بد دیانتی، بے راہ روی، اور کمزوروں پر ظلم و زیادتی جیسی برائیاں عام ہو گئی ہیں۔ مسلمانوں میں ایثار و قربانی، ہمدردی اور خدمت خلق کا جذبہ باقی نہیں رہا۔ معاشرے میں جھوٹ، تہمت، غیبت و بے حیائی اور سود خوری کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ جس کی وجہ سے قوم کی حالت تباہ اور عزت ذلت و رسوائی میں تبدیل ہو گئی۔ دین کا نام رہ گیا اور بے جا رسم و رواج نے لوگوں کو اپنی زنجیروں میں جکڑ لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج نئی نسل بے راہ روی اور تعلیم سے دور نشہ کی عادی اور تہذیب و تمدن سے خالی ہوگئی۔ یہی وہ برائیاں ہیں جس نے قوم کو سماجی، معاشرتی ، اقتصادی اعتبار سے انتہائی کمزور کردیا۔
’’مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہو‘‘ ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔ "تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے اعتبار سے بہتر ہے۔” اخلاق کیا ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے اخلاق کی تربیت دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمہیں گالی دے تو تم جواب میں اس کو دعا دو،یعنی گالی کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ دعا اور اچھے الفاظ سے دو۔ جو تمہیں برا کہے تم اس کو اچھا کہو، جو تمہاری بد خوئی کرے تم اس کی تعریف اور اچھائی بیان کرو، جو تم پر زیادتی کرے تم اسے معاف کر دو۔
‘‘ یہ ہمارے لیے اخلاق کی تربیت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہمارا معاشرہ اس پر عمل کرے تو معاشرہ سے تمام اخلاقی خرابیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں اور معاشرہ امن، اخوت، بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہے اور تم اس کے جواب میں اسے دعا دو تو ایک دن اسے خود بخود شرم آئے گی کہ میں تو اسے گالی دیتا ہوں اور وہ مجھے جواب میں دعا دیتا ہے تو مجھے شرم آنی چاہیے کیوں نہ میں بھی اسے دعا دوں اور اس کی تعریف کروں کہ وہ ایک اچھا انسان ہے جو میری گالی کے جواب میں دعا دیتا ہے، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتا۔ اگر کوئی تمہیں برا کہتا ہے اور تم اسے اچھا کہتے ہو تو ایک دن وہ تمہیں اچھا کہنے لگ جائے گا۔
اگر کوئی تم سے زیادتی کرتا ہے اور تم اسے معاف کر دیتے ہو تو اس کے دل میں تمہاری قدر اور خلوص بڑھے گا۔ اگر کوئی تمہارے حقوق تلف کرنے کا موجد بنتا ہے تو تم اس کے حقوق کے محافظ بن جاؤ تو یقیناًایک دن ضرور اسے بھی شرم آئے ہی جائے گی اور اس طرح معاشرہ خود بخود سدھرتا چلا جائے گا۔
گر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دنیا و آخرت میں اعلی مقام حاصل کر سکیں ۔ اپنے غموں اور پریشانیوں کا خاتمہ کر سکیںتو ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کا مطالعہ کر کے سچے پکے مسلمان بنیں اور پھر اسلام کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ کریں ۔ ہماری مشکلات کا حل صرف اور صرف اسلامی تعلیمات پر عمل سے ہی ممکن ہے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے پہلے اسلامی تعلیمات کو جاننا ضروری ہے ۔ اللہ پاک ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اسلام کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرماٸے ۔
آمین