بڑی فتح کے سامنے چھوٹی شکست بے معنی
فیصل فاروق
پورا ملک مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات دیکھ رہا تھا۔ پوری طاقت جھونکنے کے باوجود بی جے پی کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بنگال میں ممتا بنرجی نے فتح کا پرچم لہرایا۔ مغربی بنگال میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی قیادت میں بی جے پی کی انتہائی جارحانہ انتخابی مہم کا مقابلہ کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے بنگال کے قلعہ پر نہ صرف اپنا قبضہ برقرار رکھا ہے بلکہ اُنہوں نے اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر کے قومی اپوزیشن کو یہ پیغام بھی دیا کہ بی جے پی ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ اُسے ہرایا جا سکتا ہے۔
بی جے پی کی ہار اور ٹی ایم سی کی جیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بنگال کے سمجھدار ووٹرز نے ترنمول کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں جانے والے لیڈروں کو تسلیم نہیں کیا۔ بے خوف و خطر ہو کر ووٹنگ کی۔ جس کیلئے بنگال کے ووٹرز، اور خاص طور پر مسلم ووٹرز مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اور تو اور بی جے پی بنگال کے عوام کی نبض سمجھنے میں ناکام رہی۔ امیت شاہ کی ”چانکیہ نیتی“ دھری کی دھری رہ گئی۔ امیت شاہ مسلسل ۲۰۰/سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کر رہے تھے جبکہ ١٠٠/سیٹیں بھی نہیں جیت سکے۔
ترنمول کانگریس کی تاریخی فتح نے تمام انتخابی سرویز کو غلط ثابت کر دیا۔ کسی بھی ایکزٹ پول نے یہ اندازہ نہیں لگایا تھا کہ ممتا بنرجی اتنے بڑے فرق کے ساتھ اقتدار میں واپسی کریں گی۔ ممتا بنرجی کے سامنے مودی اور شاہ کا گیم پلان پوری طرح سے فیل ہو گیا۔ دونوں نے پوری کابینہ کو لے کر پچاس سے زیادہ ریلیوں اور روڈ شوز میں حصہ لیا۔ بنگال انتخابات میں رابندرناتھ ٹیگور کا نہ حلیہ کام آیا، نہ کام آئی بی جے پی کی ہندو مسلمان کو بانٹنے والی سیاست۔ ٹی ایم سی نے مغربی بنگال میں جیت کی ہیٹرک مکمل کی ہے اور پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں سامنے آئی ہے۔
بہرحال ممتا بینرجی نے بنگال تو بچا لیا مگر خود ہار گئیں۔ نندی گرام میں اُن کی شکست کی توقع بالکل نہیں تھی۔ حالانکہ ممتا بنرجی نے نندی گرام میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا ہے۔ ویسے مجموعی طور پر پارٹی کی شاندار فتح کے آگے اپنی ہی پارٹی کے ایک باغی امیدوار سے جس نے ذاتی مفاد کیلئے پالا بدل لیا تھا، سے شکست بہت زیادہ معنی نہیں رکھتی ہے۔ اپنی قیادت میں پارٹی کو دو تہائی اکثریت دلانے کے بعد اِس سیٹ سے دیدی کی شکست کو اُن کا ’مائنس پوائنٹ‘ کہہ سکتے ہیں۔