آسام کے نتائج: غوروفکر کے چند پہلو

آسام کے نتائج: غوروفکر کے چند پہلو

مولانا محمد برہان الدین قاسمی
ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی

مسلمان کے ساتھ اتحاد خود غیر مسلم ووٹرس قبول نہیں کرتا ہےاور یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے. ریورس پولارائزیشن ہی واحد وجہ ہے جو یو پی، بہار اور آسام جیسے صوبوں میں بار بار بی جے پی کے لئے آسان جیت کا سبب بن رہا ہے. آج آسام میں عظیم اتحاد کی اس شکست میں مجھے کانگرس اور اے آئی یو ڈی ایف کی طرف سے کوئی بھی قابل ذکر اسٹریٹیجک کمی نظر نہیں آتی ہے اور نہ بی جے پی کی جیت کے لئے اس کی کوئی بھی مثبت اور عوام کے لئے مفید کارکردگی اس کی وجہ ہے. اس ہار اور جیت کے لئے ایک چیز جو صاف اور واضح طور پر نظر آرہی ہے وہ ہے ریورس پولارائزیشن.

آسام میں جو بھی 50 سیٹیں کانگریس اور اے آئی یو ڈے ایف اتحاد نے جیتی ہیں یہ سب مسلم ووٹوں کی بنیاد پر ہی ہے. کانگریس میں بھی جیتنے والے زیادہ تر امیدوار مسلمان ہیں. یہ طے تھا کہ اگر کانگریس اوپری آسام، جہاں مسلمان کافی کم تعداد میں ہیں، سے کم سے کم 15 سیٹیں نہ لا پائے تو کسی صورت کامیابی ممکن نہیں ہے. آج وسطی اور ذیلی آسام کا نتیجہ ایسا ہی آیا ہے جیسا ہم نے سوچا تھا لیکن اوپری آسام میں کانگریس کا نتیجہ 2016 سے بھی خراب ہوگا یہ تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کیونکہ اوپری آسام کے لوگ بھی سی اے اے کے سخت مخالف تھے، نیز چائے باغات اور آسامی بولنے والے لوگ کانگریس کے بنیادی ووٹ بینک مانے جاتے تھے. وہاں 45 میں سے 41 سیٹیں جیت کر بی جے پی نے پہلے ہی راؤنڈ میں انتخابات کا کھیل بگاڑ دیا تھا.

واضح رہے کہ 2016 میں کانگریس اور یو ڈی ایف جب تنہا تنہا تھے تو کانگریس نے کل 26 اور یو ڈی ایف نے 14 سیٹیں جیتی تھی، اب عظیم اتحاد کے ساتھ کانگریس 106 سیٹیں لڑکر صرف 29 اور یو ڈی ایف 19 لڑکر 16 ہی جیت پائی ہے. یہ تعداد ایک پیغام ہے.

اس صورت حال میں کانگریس کے لئے مسلمانوں کو لیکر آگے کا راستہ بہت مشکل لگ رہا ہے. یہ ایک سیاسی حقیقت ہے جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوگی. بنگال میں ممتا کی اگریسو لیڈرشپ، بنگالی اور غیر بنگالی والے جذبات، بی جے پی کا وہاں بنیادی ڈھانچہ کمزور ہونا اور عورتوں کا مجموعی طور پر ممتا کو پسند کرنا اس مرتبہ بی جے پی کی طرف سے ہزار کوشش کے باوجود ریورس پولارائزیشن نہیں ہونے دیا لیکن آئندہ ایسا نہیں ہوگا یہ بات کہنا بہت مشکل ہے. دوسری بات یہ ہے کہ خاص کر کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے، اگرچہ یہ بالکل غلط، لیکن اس بات کو بی جے پی ہندووں کے ایک بڑے طبقے میں پہونچا نے میں آسانی سے کامیاب ہو پارہی ہے اس لئے جہاں بی جے پی بمقابلہ کانگریس انتخابات ہوتے ہیں وہاں بی جے پی کے لئے مزید آسانیاں پیدا ہوجاتی ہے.

آسام کے نتائج نے مذہب سے جڑے ہوئے مسلمانوں کو صرف سیاسی طور پر کم وزن ہی نہیں کیا بلکہ ایک قسم کا اچھوت بنا دیا ہے. اس مسئلے کا حل ملک بھر کے مسلم راہنماؤں کے لئے ایک سنجیدہ موضوع بحث ہونا چاہئے. ہندوستان کی سیاست میں کانگریس کا مستقبل اب مزید تاریک نظر آرہا ہے اور اس کی وجہ صرف کانگریس کی خامیاں نہیں بلکہ ملک میں مذہبی جنونیت اور ایک طبقہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف شدت پسندی اور نفرت ہے.
_____________________