سادہ اور آسان نکاح کی دس روزہ مہم کے ساتھ ساتھ زوال پذیر مسلم معاشرے کو ایک اور تحریک کی اشد ضرورت !!!

سادہ اور آسان نکاح کی دس روزہ مہم کے ساتھ ساتھ زوال پذیر مسلم معاشرے کو ایک اور تحریک کی اشد ضرورت !!!

تحریر :خان ام حبیبہ (ممبئی)

آج کے ترقی یافتہ دور میں سماج و معاشرہ زوال پزیر ہے. بے شمار افراد اپنی لڑکیوں کی شادیاں انتہائی دھوم دھام سے کرتے ہیں. دل کے سارے ارمان اس طرح نکالے جاتے ہیں کہ غریب افراد اپنا دل مسوس کر رہ جاتے ہیں. بےجا لاڈ و پیار میں پروان چڑھنے والی بیٹیاں جب سسرال پہنچتی ہیں تو میکے جیسا ناز اٹھانے والا وہاں کوئی موجود نہیں ہوتا. اس طرح جب یہ لڑکیاں اپنے میکے آتی ہیں تو اپنے سسرالی رشتے داروں کی بے اعتنائیوں کا رونا اس طرح روتی ہیں کہ لڑکیوں کے اہل خانہ بھی اپنی بچی کی قسمت خراب ہونے کی دہائی دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں. سارا ماجرا بغیر سنے سمجھے طرح طرح کےفتوے دیتے ہوئے اپنی بیٹی کو سیر کا سوا سیر بنا دیتے ہیں. کسی کی ایک بات کہنے پر سو سو باتیں سنانے کا فن سکھایا جاتا ہے. خود آرام کرنا اور سسرالی رشتے داروں سے زیادہ کام لینے کے گر سکھائے جاتے ہیں. شوہر کو اپنے بس میں کرنے کے لئے ناز و انداز سکھائے جاتے ہیں اور جب یہ سب نہیں ہوتا ہے تو میکے کی خواتین اپنی نازوں پلی بیٹی کو یہ سبق سکھاتی ہیں کہ اپنے شوہر سے ضد کرکے سسرال سے دور کہیں الگ رہنے میں ہی اس کی عافیت ہے اور اگر سارے حربے اور ٹوٹکے آزما لینے کے بعد ایسی لڑکیوں کی دلی مراد بر نہیں آتی ہے تو ماں باپ کی شہ پر یہ لڑکیاں پہلے تو مہیلامنڈل کیندر کی سیڑھیاں چڑھتی ہیں. یہاں کے ذمہ داران دونوں خانوادوں کو شیر و شکر ہونے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن لڑکی کے دماغ میں کہیں دور الگ رہنے کا خناس جب سر چڑھ کر بولتا ہے تو یہ لڑکیاں پولیس اسٹیشن ہوتے ہوئے کورٹ کی دہلیز تک جا پہنچتی ہیں. ایک عدد وکیل کا انتظام کرکے کورٹ اخراجات کے نام پر اسے ہزاروں روپیہ بھی ادا کرتی ہیں. اپنے وکیل کے ذریعے بے شمار جھوٹے الزامات شوہر, ساس سسر اور دیگر سسرالی عزیزوں پر عائد کرتے ہوئے انھیں جیل کی سلاخوں کے پچھے پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتی ہیں. یہ ظالم و سفاک لڑکیاں ایسے ایسے بے سر و پا الزامات گڑھتی ہیں کہ کورٹ کے جج صاحبان بھی زیر لب مسکرا کر رہ جاتے ہیں. دین اسلام کا سبق ہے کہ اپنے بیٹوں کی شادیاں کرنے سے پہلے ان کے لئے رہنے کا کوئی معقول اور علیحدہ انتظام کردیا جائے لیکن کیاکیا جائے کہ غریب اور متوسط طبقہ کے اختیار میں نہیں کہ وہ اپنے گھر کے کفیل کی شادی کے بعد اسے کہیں دور بساتے ہوئے خود بے سہارا ہو جائیں.
آج معاشرہ انتہائی دشوار کن موڑ پر پہنچ گیا ہے. معاشرہ کے پلوں کے نیچے سے سارا پانی بہہ کر اپنے پچھے تعفن آمیز غلاظت چھوڑ جاتا ہے. کسی لڑکی کی جانب سے عائد شدہ سسرال پر بے سر و پا الزامات صحیح مانتے ہوئے قانون و عدلیہ بھی اس پر ایمان لے آتی ہے اور رہا شوہر یا ساس سسر تو ان کی کوئی بات اس قابل بھی نہیں گردانی جاتی کہ کوئی ان پر عائد شدہ الزامات کی حقیقت جان لیں. کہیں بھی جب کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو خود ساختہ علمائے دین اور مفتیان کرام جھٹ اپنی زنبیل سے ایک عدد فتوی نکال کر اخبارات کی زینت بننے کی کوشش شروع کردیتے ہیں. لاکھوں کی آبادی میں کہیں ایکاد واقعہ ایسا منظر عام پر آیا ہوگا کہ کسی سسرال والوں نے جہیز کی لالچ یا آپسی اختلافات کی وجہ سے کسی بہو کی زندگی جنہم بنائی ہو. بے شمار سسرال ایسے بھی ہیں جہاں بہوؤں کو سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھا جاتا ہے. آج ہزارہا گھر بہوؤں کی وجہ سے ہی جنہم بنے ہوئے ہیں اور ایسے تمام گھروں کو جنہم بنانے کا ذریعہ میکہ کی خواتین بھی ہیں. آج علمائے دین خواتین کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں. خواتین کے حقوق کی پاسداری کے لئے قران و حدیث سے فتوے لارہے ہیں. ٹی وی پر مناظرے میں حصہ لیتے ہوئے سماج و معاشرہ میں بگاڑ کا رونا رویا جارہا ہے. علمائے دین کو چاہیے کہ وہ جنس مخالف کی بےجا طرف داری نہ کرتے ہوئے اپنے ہم جنس کی تکالیف کا بھی ازالہ کرنے کی کچھ کوشش کریں. آخر کب تک شوہر ساس, سسر اور دیگر سسرالی عزیز مہیلا منڈل, پولیس اسٹیشن اور کورٹ کا طواف کرتے رہیں گے حالانکہ آج مستند علمائے کرام کے ذریعے سادہ اور آسان نکاح کی ترغیب دینے کے لئے ملکی سطح پر دس روزہ مہم جاری کی گئی ہے اس سے بہتر ہوتا کہ لڑکیوں کے والدین اور خود شادی شدہ لڑکیوں کو ان کی ذمہ داریوں سے روشناش کرنے کے لئے دس روزہ کی بجائےصرف دس منٹ کی ہی کوئی تحریک چھیڑ دی جائے. ہمیں یقین ہے کہ جس دن بھی ایسی کوئی تحریک چھیڑی جائے گی ہزاروں گھر ٹوٹنے سے محفوظ ہو جائیں گے اور کورٹ کے طواف میں مصروف معصوم لڑکیاں اپنے اپنے سسرال میں خوش و خرم اور آسودہ حال زندگی گزارنے لگ جائیں گی.