مولانا ابوالکلام آزاد رح کامشن
تحریر مولاناعبدالمالک مغیثی
بھارت کی سیاست پر جن مسلم لیڈروں نے اپنی نمایاں چھاپ چھوڑی ان میں مولانا ابو الکلام رح آزاد کا نام سنہرے الفاظ میں درج ہے،آپ 11 نومبر 1888 کو شہر مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے،آزادی کی تحریک میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہے،انھوں نے اپنے جوشیلے انداز بیان والی تقریروں کے ذریعے اہل وطن میں ایک نء روح پھونک حصول آزادی کے لیے بیداری پیدا کی،آزادی کے ساتھ تقسیم ہند کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے میں انھوں نے نمایاں رول ادا کیا، وہ اقلیتوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ یہ تمہارا ملک ہے اور تم اسی ملک میں رہو،1947 میں جامع مسجد دہلی سے مولانا نے اپنی تاریخی تقریر میں کہا تھا کہ یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدّس نام پر اختیار کی ہے، اُس پر غور کرو،تمہیں محسوس ہو گا کہ یہ غلط ہے،اپنے دِلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟ آؤ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے،ہم اِسی کے لئے ہیں اور اِس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔
”میر عرب کو آء ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرا وطن وہی ھے میرا وطن وہی ہے”
مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو انکی بلند فکر و خیال کے قائل تھے اور ملک کے ہر مسئلے پر آپ کی رائے لیتے،وہ بھارتی تاریخ کے پہلے وزیر تعلیم تھے،انہوں نے بھارت کے بحیثیت وزیر تعلیم اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسا عمل شروع کیا جس کا مقصد نسلوں کی تعمیر وصلاح تھا اس مقصد کے تحت انہوں نے قوم کو تعلیم کے حصول کیلئے تیار کیا اورکہا جب تک ہماری قوم تعلیم سے روشناس نہیں ہوگی تب تک زمانے سے قدم ملاکر چلنے کی اہل نہیں ہوگی،انہوں نے1951ء میں کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کو بھی قائم کیا جو بعد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھڑک پور کے نام سے مشہور ہوا۔
انکے یوم وفات کے موقعہ پر آل انڈیا ملی کونسل سہارنپور کے زیر اہتمام جامعہ رحمت گھگھرلی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی ضلع صدر ملی کونسل سہارنپور نے کہا کہ مولانا ایک عالم دین،سیاست داں،صحافی،مصلح،ادیب اور خطیب بھی تھے،مولانا آزاد کا بیسویں صدی کے بہترین اردو مصنفین میں سے شمار کیا جاتا ہے، مولانا آزاد نے کئیں کتابیں لکھیں جن میں غبار خاطر، انڈیا ونس فریڈم (انگریزی)، تزکیہ، ترجمان القرآن سر فہرست ہیں۔
ضلع صدر ملی کونسل نے مزید کہا کہ مولانا کے خیال میں آزاد بھارت میں تعلیم کا سب سے اہم مقصد نئی نسل میں ذہنی بیداری پیدا کرنا تھا،مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا کہ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میں نے سمجھا ہے کہ ہمارے لئے ہر حال میں ضروری کام عوام کی تعلیم ہے یہی کام سب سے زیادہ اہم ہے اور اسی کام سے ہمیں اب تک دور رکھا گیا ہے,مولانا کہا کرتے تھے کہ تعلیم کا واحد مقصد روزی،روٹی کمانا نہیں، بلکہ تعلیم سے شخصیت سازی کا کام بھی لیا جانا چاہئے اور یہی تعلیم کا سب سے مفید پہلو ہے اور اسی سے معاشی وتمدنی نظام بھی بہتر ہوسکے گا۔
مولانا ابو الکلام آزاد، آزادی کے قریب گیارہ برس بعد اس دارِ فانی سے 22 فروری 1958 کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے،یقیناً آپکی وفات سے جہاں ملک نے ایک نایاب ہیرا کھویا وہیں مسلم قوم نے گویا اپنی آواز کھوئی،انھوں نے اپنے ایک فعال وقابل رہنما کو کھویا.جس کی بھرپائی آج تک نہیں ہو پائی،لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جس مرد مجاہد نے وطن عزیز کی بقا کی خاطر بے شمار قربانیاں دیں آج انھیں ایک طرح سے دانستہ یا نا دانستہ طور پر فراموش کیا جا رہا ہے.!
مولانا کے اقوال اور انکی تحریرات ہمیں ہمارے مستقبل کے لئے فکرمند بنارہی ہیں اور ہمیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اگر ہم اپنے خوابوں کو صحیح معنوں میں شرمندہ ئتعبیر کرنا چاہتے ہیں اور سادہ خاکوں میں رنگ بھرنا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیم کے میدان میں آگے آنا ہوگا اور ملت کی سرفرازی کی راہیں خود تلاش کرنی ہونگی، اور اس کے لئے تعلیمی بیداری مہم چلانی ہوگی۔