سپریم کورٹ میں جمعیۃ علماء ہندکی مداخلت کار کی عرضی منظور

سپریم کورٹ میں جمعیۃ علماء ہندکی مداخلت کار کی عرضی منظور
عرضی گزار کو عرضی میں ترمیم کی اجازت،سماعت دوہفتے کے لئے ملتوی
نئی دہلی:17 فروری
سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج لوجہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشت میں جمعیۃ علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا،پچھلی سماعت میں داخل شدہ پٹیشن پر عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن و دیگر کی جانب سے داخل کردہ اپیلوں پرآج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عدالت نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے پوچھا کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند کا مفاد کیا ہے اور وہ کیوں مداخلت کاربننا چاہتی ہے؟اس پر اعجاز مقبول نے انہیں بتایا کہ جمعیۃعلماء ہند ہندوستانی مسلمانوں کی ایک قدیم تنظیم ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اس کے بنیاد ی مقاصد میں شامل ہے۔ ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے کو یہ بھی بتایا کہ لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے ا ور یہ سلسلہ جاری ہے لہذا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے اس غیر آئینی قانو ن کو ختم کرنے کے لیئے داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء ہند بھی مداخلت کار بننا چاہتی ہے تاکہ عدالت میں اس تعلق سے اپنا موقف پیش کرسکے۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے عدالت کو مزید بتایا کہ سیتا پور لو جہاد کے جس معاملے میں پولس نے تین خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے ان کے مقدمہ کی پیروی جمعیۃ علماء ہند کررہی ہے۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے دلائل کی سماعت کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا نے جمعیۃ علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا۔ اسی درمیان چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے جس میں جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم شامل ہیں،سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن کو اپنی پٹیشن میں ترمیم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت دو ہفتوں کے لیئے ملتوی کردی۔یاد رہے کہ مذکورہ تنظیم نے پہلے اتر پردیش اور اتر اکھنڈ ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کیا تھا لیکن آج انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش ریاستوں نے بھی اسی طرز پر قانون بنایا ہے لہذا وہ ان چاروں ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں جس کی عدالت نے انہیں اجازت دے دی۔واضح رہے کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے مداخلت کار کی پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں میں کہا گیا ہے کہ ”غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 کو اتر پردیش حکومت نے منظور ی دی ہے جبکہ اتر کھنڈ حکومت نے فریڈم آف ریلجن نامی قانون کو منظوری دی ہے ان قوانین کو بنانے کا مقصد درحقیقت ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی بین مذہب شادیوں کو روکنا ہے جو کہ آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور اس سے شخصی آزادی کا بھی انحراف ہوتا ہے،جس کا التزام آئین میں موجود ہے۔عرضداشت میں مزید کہا گی اہے کہ ان قوانین کے ذریعہ مذہبی اور ذاتی آزادی پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے جو غیر آئینی ہے لہذا سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہئے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کردیا جاناچاہئے۔