اس خاتون کو پہچانتے ہیں آپ۔۔۔۔؟
ایم ودود ساجد
زیر نظر تصویر کو دیکھنے کے بعد میرے پاس لکھنے کو کچھ نہیں ہے۔۔۔ یہ اِس ملت کی لُٹی پِٹی تصویر ہے۔۔۔ یہ ایک بھرے پُرے سیاسی خاندان کی اُجڑی ہوئی تصویر ہے۔۔۔ یہ تصویر اُس سن رسیدہ خاتون کی ہے جو اعظم خان کی اہلیہ ہے اور جو 10 مہینے سلاخوں کے پیچھے رہ کر آزاد ہوئی ہے۔۔۔
اعظم خان سے جنہیں سیاسی اختلاف ہے وہ اختلاف کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔۔ مجھے بھی ان کی سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔ مگر 2007 میں نئی دنیا اخبار کیلئے ان سے لیا گیا ٹیلیفونک انٹرویو مجھے یاد ہے۔۔۔ اعظم خان نے 45 منٹ تک بات کی تھی۔۔ ان 45 منٹ میں وہ کئی مرتبہ ٹوٹے تھے۔۔۔ ان کی آواز کئی مرتبہ ان کے گلے میں پھنسی تھی۔۔۔ آنسو بھی شاید ٹپکے تھے۔۔۔ ہچکیاں تو بندھی ہی تھیں ۔۔۔ وہ اتنی دیر تک یہی شکایت کرتے رہے کہ مایاوتی نے ان کے خواب پر شبخون مارا ہے۔۔۔
وہ جب یہ کہتے تھے کہ میں نے اپنا خون نچوڑ کر رامپور ہی نہیں پورے ملک کے اپنے بچوں کیلئے ایک شاندار یونیورسٹی بنائی ہے اور حکومت اور بی جے پی کے غنڈے مل کر اس یونیورسٹی کو مٹی میں بدل دینا چاہتے ہیں تو کچھ دیر کیلئے ان کی آواز بند ہوجاتی تھی۔۔۔ شاید آنسو بہاکر اس ملت کی بے حسی کے داغ کو دھوتے تھے۔۔۔ مایاوتی کی حکومت تھی۔۔ اس نے یونیورسٹی میں بڑی توڑ پھوڑ مچائی تھی۔۔ بجلی کے کھمبے’ قمقمے’ فرش کیلئے رکھے ہوئے قیمتی پتھر’ کلاسوں میں رکھی ہوئی کرسیاں’ لائبریری میں رکھی ہوئی کتابیں اور الماریاں۔۔ سب کو اکھاڑ پچھاڑ دیا تھا۔۔۔ میرا انٹرویو اسی رونے دھونے میں پورا ہوگیا تھا۔۔۔
آج اعظم خان کی 70 سالہ بیوی کے انٹرویو کا کچھ حصہ سنا۔۔۔ ہمت نے جواب دیدیا۔۔۔ 13 سال پہلے کا واقعہ یاد آگیا۔۔ اعظم خان کی جگہ اب ان کی بیوی تھی۔۔۔ اعظم خان اور ان کا بیٹا عبدالله تو ابھی جیل ہی میں ہیں ۔۔۔ جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے والی تنزین فاطمہ کو فکر صرف یونیورسٹی کی ہے۔۔ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کی۔۔۔ وہ ایک ہی سوال کرتی ہیں : کہ میں 60 سال کی عمر تک ایجوکیشن محکمہ میں خدمت انجام دیتی رہی اور بے داغ رہی۔۔۔ اب اچانک اتنی بڑی Criminal کیسے بن گئی ؟ کیا اس لئے کہ ہم نے ایک یونیورسٹی قائم کردی۔۔۔۔؟
سوچتا ہوں کہ اعظم خان کی بھاری بھر کم آواز ہمیں نہ بیدار کرسکی تو اس ستم رسیدہ تنہا خاتون کی منحنی آواز ہمیں کیا جگاسکے گی۔۔۔ جب اعظم خان دہاڑتے تھے تو ہم بڑے شوق سے سنتے تھے’ بہت خوش ہوتے تھے’ بڑے جذباتی ہوجاتے تھے۔۔۔ آج ان کی دہاڑ بند ہے اور ان کی بے بس اہلیہ اپنی بے کسی کی داستان سناکر ہم جیسوں کے منہ پر طمانچے جڑ رہی ہے۔۔۔ لیکن انہیں معلوم نہیں کہ ہم ایسے طمانچوں اور ایسے تھپیڑوں سے کہاں جاگتے ہیں ۔۔۔