حیدر آباد میونسپل کارپوریشن کے چناؤ نتائج۔۔۔۔۔۔!!!
کانگریس کے لئے لمحہء فکریہ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
تجزیہ خبر
سلیم الوار ے
ملک کے بڑے سے بڑے شہرکی کارپوریشن کے چناؤ بھی قومی سیاست میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ پچھلے چالیس سا لوں سے ممبئی میونسپل کارپوریشن پر شیو سینا – بی۔ جے۔ پی۔ کی حکمرانی رہی ہے اور اس پورے عرصے میں ریاست میں بھی اور قومی سطح پر بھی مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں بنتی بدلتی رہیں۔ کارپوریشن میں شیو سینا – بی۔ جے۔ پی۔ کی سرکار کے رہتے ہوئے بھی ملک کے لوک سبھا چناؤ میں دو مرتبہ کانگریس ممبئی کی تمام چھ پارلیمانی نشستوں پر قبضہ جمانے میں کامیاب رہی تھی اور اسی عرصے میں سینا – بی۔ جے۔ پی۔ نے بھی لوک سبھا چناؤ میں ممبئی میں دو مرتبہ تمام چھ نشستیں حاصل کی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اب آئندہ سال ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ بھی ہونے جا رہے ہیں جن کے نتائج کے بارے میں ابھی قیاس نہیں لگایا جا سکتا۔
ابھی حال ہی میں حیدر آباد میونسپل کارپوریشن کے چناؤ ہوئے جس میں حیرت انگیز طور پر 48 سیٹو ں کے ساتھ بی جے پی دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری جبکہ دوسری چونکا دینے والی خبر یہ تھی کہ کانگریس کا شہر سے صفایا ہو گیا اور وہ صرف 2 سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل کر سکی جبکہ سچ یہ ہے کہ 2016 کے چناؤ میں بھی کانگریس 2 سیٹوں پر ہی کامیاب ہو سکی تھی مگر ہاں 150 سیٹوں والی اس کارپوریشن میں 2009 میں کانگریس نے 52 سیٹیں جیتی تھی جب کانگریس کے اچّھے دن تھے جبکہ 2009 میں بی جے پی محض 4 سیٹیں ہی حاصل کر سکی تھی اور 2014 میں بھی اُسے 4 سیٹوں پر ہی اکتفاء کرنا پڑا تھا۔
جہاں تک ایم آئی ایم کی بات ہے اس نے 44 سیٹوں کے ساتھ اپنا وقار اور دبدبہ قائم رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے کیوں کہ 2016 میں بھی ایم۔ آئی۔ ایم۔ نے44 سیٹیں حاصل کی تھیں اور 2009 میں بھی اسے 43 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں یعنی کل ملا کر ایم۔ آئی۔ ایم۔ کو کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن بی جے پی کی غیر معمولی کامیابی تلنگانہ کےآئندہ اسمبلی چناؤ میں ایم۔ آئی۔ ایم۔ اور ٹی۔ آر۔ ایس۔ کے لئے خطرے کی گھنٹی ضرور ہے۔
حال ہی میں ہوئے بہار اسمبلی چناؤ کے نتائج پر تبصر ہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار وں نے مہا گٹھ بندھن کی شکست کی ذمہ داری کانگریس پر تھوپنے کی کوشش کی کہ کانگریس نے 70 سیٹوں پر چناؤ لڑکر بڑی غلطی کی اسے ذیادہ سیٹیں جے. ڈی. یو.کے لئے چھوڑنی چاہیے تھی جسکی لہر چل رہی تھی اور جس کی کارگردگی بھی اچّھی رہی ۔ اب حیدرآباد کارپوریشن کے نتائج پر بھی خوب تبصرے ہو رہے ہیں حالانکہ کسی شہر کے کارپوریشن کے چناؤ پر قومی سطح پر تبصرے کا یہ پہلا موقع ہے جس کا کریڈٹ بی۔ جے۔ پی کو دیا جانا چاہیے جس نے جارحانہ انداز میں حیدر آباد میونسپل کارپوریشن کی انتخابی مہم چلائی، موثر انداز میں چناؤ لڑا اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا، امیت شاہ سے لےکر یوگی ادتیہ ناتھ اور پارٹی کے دیگر کئی اہم لیڈران کو انتخابی مہم میں اتارا اور 2016 میں حاصل محض 4 سیٹوں سے 2020 میں وہ 48 سیٹوں تک جا پہنچی۔
حالانکہ بی۔ جے۔ پی۔ مسلم مخالف ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھی ہے اور حیدر آباد میں بھی اس نے اپنی انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر 48 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ بی۔ جے۔ پی۔ کی فرقہ پرستی اور حکومتیں بنانے کی لالچ سے یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ کشمیر تا کنیاکماری ہر ریاست، ہر صوبہ اور ہر شہر میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف کانگریس جیسی سب سے پرانی اور سب سے بڑی پارٹی ریاست در ریاست، شہر در شہر اپنا وجود کھوتی نظر آ رہی ہے۔
موجودہ حالات میں جبکہ معیشیت برباد ہو چکی ہے اور بی۔ جے۔ پی۔ اپنی حکومت کی تجدید کے لئے صرف اور صرف ہندوتوا کا کارڈ کھیل رہی ہے ملک میں کانگریس و دیگر سیکولر طاقتوں کا مضبوط ہونا اشد ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی علاقائی پارٹی بی جے پی کا ملکی سطح پر مقابلہ نہیں کر سکتی لہٰذا کانگریس لیڈر شپ اور لیڈر شپ کی ہاں میں ہاں ملانے والے قد آور کانگریسی لیڈران کے لئے یہ لمحہء فکریہ ہے ورنہ وہ یہ سمجھ لیں کہ جلد یا دیر ملک کی کئی ریاستوں سے کانگریس کا وجود ہی ختم ہو جائیگا اور اُسکے بعد ملک کس سمت جائیگا یہ کہا نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔۔!!!