*ویشالی کی مظلوم بیٹی کو انصاف دلانے میں مدد کریں_*
شاھنوازبدرقاسمی
ویشالی کی جس مظلوم بیٹی کیلئے اس وقت پورے ملک میں صداۓ احتجاج بلند کیا جارہاہے اس سے ہمارا بھی جذباتی اور سماجی رشتہ ہے، یہ حادثہ ٣٠/اکتوبر کو پیش آیا تقریباً ایک ہفتہ اس کیس کو چھپانے کیلئے ان ظالموں نے پولیس انتظامیہ کی مدد سے اسے حاجی پور کے ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں قیدی بناکر رکھا لیکن کرن یادو نامی ایک سماجی کارکن نے بڑی جدوجھد کے بعد اسے پٹنہ پی ایم سی ایچ میں ایڈمیٹ کرانے میں کامیاب رہی، پٹنہ ہاسپٹل میں داخل کرانے کے ایک دن بعد ٨نومبر کو کی شام کو مجھے اس درد ناک حادثے کا علم ہوا، ہم بہت بے چین ہوۓ، سعودی عرب سے میرے ایک عزیز دوست نے اس واقعہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے اٹھانے کی اپیل کی جس پر ہم نے ان سے یہ کہتے ہوئے وعدہ کرلیا کہ اگر تحقیق کے بعد یہ اطلاع درست ہے تو ہم ضرور اس مظلوم بہن کو انصاف دلانے کیلئے آواز اٹھائیں گے، ٩نومبر کو ہم نے پٹنہ میں موجود ایک دوست جو فی الحال ایک ملی جماعت سے وابستہ ہیں انہیں تحقیق سے بھیجا الحمدللہ وہ میری درخواست پر وہاں گئے جو حالات بتائیے میں بہت زیادہ پریشان ہوگیا، مفتی نافع عارفی جسے ہم نے صرف دیکھنے کیلئے بھیجا تھا انہوں نے بتایا کہ اسے فوری طور پر انصاف سے زیادہ مالی امداد کی سخت ضرورت ہے، نافع بہائی نے بتایاکہ میرے جیب میں جو کچھ تھا اس وقت تقریباً ڈھائی ہزار ہم نے دے دیا لیکن علاج کیلئے یہ ناکافی ہے، ہماری بے چینی بڑھتی چلی گئی ہم نے اسی رات میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ ڈالی جس پر ہمارے مخلصین نے تقریباً ٣٠/ہزار کی مالی مدد کی اور اس میں مزید اضافے کے ساتھ ہم نے ١٠/نومبر کو گلناز کی والدہ اور ہاسپٹل میں موجود چھوٹی بہن کے حوالے کردیا، ہم اس وقت مزید پوسٹ نہیں لکھا کیوں کہ ہمیں اس رقم کے بھیجنے والے نے سوشل میڈیا پر تشہیر سے منع کیا تھا، اس درمیان کئ پٹنہ میں موجود کئی ملی جماعت کے ذمہ داران کو میسج بھی کیا لیکن مولانا انیس الرحمن قاسمی کے علاوہ کسی کی طرف سے کوئی جوابی ردعمل نہیں آیا، مولانا نے ویشالی پولیس کے علاوہ بہار کے بڑے افسران کو بھی اس واقعے کی اطلاع دی، مجھے کہاگیا کہ ہم لوگ ضرور مدد کریں گے لیکن کیا معلوم تھا ہماری وہ بہن جس کیلئے میں بے چین تھا وقت رہتے ہوۓ زندگی بچائی جاسکتی تھی لیکن ہماری سستی، کاہلی اور نظراندازی نے اس مظلوم بیٹی کی جان لے لی، اس کی موت کیلئے سرکار نہیں بلکہ ہم خودکو ذمے دار مانتے ہیں، مرنے کے بعد اردو اخبارات میں احتجاجی بیانات اور سوشل میڈیا پر کئی نامی گرامی شخصیات کا ویڈیو دیکھ کر رونا آتا ہے کاش مرنے سے پہلے ہم اگر اس کی معمولی فکر کرلیتے تو شاید اس کی جان بچ جاتی اور اسے بروقت انصاف بھی مل جاتا، میں ابھی بھی حیران اور پریشان ہوں سب مذمت میں لگے ہوۓ ہیں لیکن ابہی تک کسی نے قانونی مدد کی ذمے داری نہیں لی ہے ہم امید کرتے ہیں کہ اگر آپ نے میری پہلی اپیل پر توجہ نہیں دی تو کم ازکم اس آخری اپیل پر ضرور توجہ دیں اور اس مظلوم بیٹی کو انصاف دلانے میں ضرور مدد کریں_