تحریر سلیم شیخ
جہاں تک بہار کا تعلق ہے ہم سب جانتے ہیں ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی کی گئی ہے جس کی شکایت کی جا رہی ہے جب تک ای وی ایم سے الیکشن ہوتے رہینگے کسی کو کوئی چانس نہیں ملنے والا انیس بیس سے بھاجپا ہمیشہ سرکار بنا لیگی۔
مجلس کی شاندار کامیابی سبھی سیاسی جماعتوں کے لئے لمحہ فکر بھی ہے اور وارننگ بھی
لمحہ فکر امت کے درمند لوگوں کے لیے ہے جو یہ سوچتے ہیں نفرت اور ڈر کی بنیادوں پر ووٹنگ نہ ہو۔ مگر حزب اقتدار جماعت جس کے قبضے میں پریس سمیت تمام ادارے بھی ہیں عین الیکشن کے وقت ایسا دھماکا کر دیتی ہے سارے عوام کا دھیان وہیں چلے جاتا ہے۔
رہا دلتوں کا سوال وہ بڑی آسانی سے سنگھ کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں اُن کے لیڈرز کو یا تو بھاجپا خرید لیتی ہے یا جیل بھیج دیتی ہے۔
اب رہا مسلمانوں کا سوال تو یہ اب کسی قدر بے خوف ہو کر ووٹنگ کر رہے ہیں یہ اب کانگریس این سی پی سماج وادی راشٹریہ جنتا دل وغیرہ کو اب آسانی سے ووٹ نہیں دینے والے مسلمانوں کی اکثریت کا خیال ہے یہ پارٹیاں ہمارا استحصال کرتی آئی ہیں اور اب وقت آ گیا ہے زرا سی ہٹ کر اپنی پارٹیوں کو ووٹ دیا جائے آخر کیوں نہ دیا جائے جب یہ کانگریس کو ووٹ دیتے ہیں تو کانگریس کے ایم ایل اے بڑی آسانی سے بھاجپا میں چلے جاتے ہیں بہوجن سماج پارٹی کے ایم ایل اے بھی a ایسا ہی کرتے ہیں تو آخر کیوں ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں پر بھروسہ کیا جائے۔
جہاں تک بنگال کا تعلق ہے مسلمانوں کی حالت زار کا زمہ دار کون ہے بھاجپا تو نہیں ہے پینتیس سالہ سی پی آئی کا دور اقتدار یا پھر دس سالہ ممتا بنرجی کا دور اقتدار مسلمانوں کی حالت چاہے معاشی ہو یا تعلیمی کتنی پست ہے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔آخر کیوں ان پارٹیوں نے 28٪ فیصد مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے حصہ داری نہیں دی۔ جب یہ صورت حال ہے تو ظاہر ہے لوگ ممتا کو اور کمیونسٹ پارٹی کو صرف کھوکھلے نعروں اور وعدوں کی بنیاد پر تو ووٹ نہیں دے سکتے۔ آپ کب تک 28 فیصد آبادی کو اس کے تناسب کے حساب سے ہر جگہ محروم رکھینگے؟
بہار کے مسلم ووٹر نے جو کیا ہو بہو وہی چیز بنگال میں ایکشن ریپلے اگر ہو جائے تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
مجلس کی حکمت عملی بھڑکیلی تقریر اور مسلمانوں کو اُن کی محرومی کا احساس دلانا ہوگا جیسا کے سیمانچل میں اویسی نے کیا مگر بنگال میں شاید اُن کا جادو ویسا نہ چل سکے جیسا بہار میں چلا تھا کیوں کہ وہاں اردو نہیں بولی جاتی ایک بات اور دھیان رکھنی چاہئے مجلس کی کامیابی ون ٹائم کامیابی ہوتی ہے جیسا کے ہم مہاراشٹرا میں دیکھ چکے ہیں۔جلد ہی اُن کے کرتوت سے لوگ بیزار ہو جاتے ہیں اور دوسری پارٹیوں کو ووٹ دے دیتے ہیں
ہمیں حیدرآباد کے سیلاب کی تباہ کاریوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس کی زمہ دار مجلس اتحاد المسلمین ہے۔