بابری مسجد اور ” بنیا گیری”

بابری مسجد اور ” بنیا گیری”

از ـ محمود احمد خاں دریابادی

۵ اگست گذر گیا ہے، ایودھیا میں تیسری مرتبہ بھومی پوجن ہوا، اس سے پہلے دوبار کانگریس کے دور میں ہوچکا ہے، اس بھومی پوچن کے بعد بھی مسلمانوں میں بے سابق پوجن کی طرح بے چینی ہے، اضطراب ہے، شوشل میڈیا میں اس کا اظہار بھی ہورہا ہے، ہمارے کچھ ” تند وتیز نوبالغ نوجوان ” اور کچھ ” نیم بالغ عمر رسیدہ، سرد وگرم چشیدہ احباب ” بھی مختلف مسلم تنظیموں اور اُن کے سربراہان کو گفتنی و ناگفتنی سے نواز کر اپنے قلوب کو مزید ” مجلّیٰ و مصفّیٰ کررہے ہیں ـ

مجموعی طور پر ہمارے نزدیک ۵ اگست کو ایودھیا میں جو ہوا اس پر تکلیف اور بے چینی اس بات کی علامت ہے کہ ہماری غیرت ایمانی الحمدللہ سلامت ہے ـ ………… لیکن …….. کبھی اس پر بھی غور کیا ہے کہ ہم اپنی کلفت اور تکلیف کے اظہار کا جو طریقہ اپنا رہے ہیں وہ فریق مخالف کے مرضی کے عین مطابق ہے بلکہ اس کی تسکین قلب میں اضافے کا سبب بھی بن رہا ہے ـ

سب سے پہلے تو یہ سمجھئے کہ ایودھیا میں جو ہوا ہے وہ غیر متوقع نہیں تھا، برسوں کی عدالتی لڑائی کے بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اُن کے حق میں فیصلہ دیا ہے، اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنے کے لئے فریق مخالف نے جو بھی سانٹھ گانٹھ یا سازش کی ہو وہ سب اپنی جگہ ! ……….. مگر فیصلہ تو ہوا ہے اور وہ اس کو بہر صورت نافذ کریں گے، اِس میں جو شک کرے وہ یقینا ” سادہ لوح ” ہے ـ ( بیوقوف کہنا مناسب نہیں)

آخر ہم یہ امید کیسے کرسکتے تھے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے برسوں کی جد وجہد کے بعد اُن کو جو جگہ دی ہے اُس میں وہ کوئی تعمیری کام کبھی نہیں کریں گے ـ ……….. ارے عدالت نے اُن کو اُس جگہ کا مالک بنا دیا ہے، وہاں ان کو مندر تو بنانا ہی تھا، آج نہ بناتے کسی اور دن بناتے ـ………. بلکہ اُن کا ارادہ تو وہاں اسی انداز میں لاکھوں کارسیوکوں کی بھیڑ جمع کرنے کا تھا جیسی دسمبر ۹۲ میں ہوئی تھی، گاوں گاوں آرایس ایس کے پرچارکوں نے جاکر جس طرح فضا بنائی تھی، لوگوں کے دماغوں میں نفرت اور تعصب کا زہر گھولا تھا، رتھ یاترائیں نکلی تھیں، بالکل اسی طرح اس بار بھی وہ کرنا چاہتے تھے، …………. مگر مشیئت خداوندی کو کیا کہئیے، چینی گھس پیٹھ، کرونا مریضوں کا لگاتار اوپر بڑھتا ہوا گراف، ممکن ہے بہت جلد بھارت کرونا میں اول نمبر پر آجائے، اسی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی، گھٹتا ہوا روزگار، گرتی ہوئی معیشت اور دنیا کے تاریخ میں بے کسوں، مجبوروں کی سب سے بڑی ہجرت، ان کے تلووں کے آبلے، خشک ہونٹوں کی پپڑی، مردہ ماؤں کے سینے سے لپٹے ہوئے معصوم بچے ! .. …… اِن سب سوالوں سے بھارت وادسیوں کا ذھن بھٹکانے کے لئے وقت سے پہلے سو دوسو لوگوں کے درمیان ہی اُنھیں بھومی پوجن کرنا پڑا ـ ……………: پھر بھی کوشش کی گئی کہ میڈیا سو دوسو افراد پر مشتمل اس آیوجن کی جم کر پبلسٹی کریے تاکہ لاکھوں شردھالوؤں کی عدم موجودگی کا احساس عام لوگوں کو نہ ہوسکے، ………. اور صاحب ! میڈیا نے واقعی اپنے آقاؤں سے نمک حلالی کا حق آدا کردیا، کئی دنوں سے چوبیس گھنٹے چینلوں پر نت نئے انداز میں ” رام کتھا ” کا جاپ چل رہا ہے، اگر تھوڑا بہت وقت بچ جاتا ہے تو ” ششانت کتھا ” شروع ہوجاتی ہے، باقی چینی گھس پیٹھ اور کرونا یہ تو معمولی خبریں ہیں، ” بڑے بڑے ملکوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں ” ………….. حد تو تب ہوگئی، جب ۵ اگست کو ہی ہندوستان کی معاشی راجدھانی ممبئی میں اسقدر شدید بارش ہوئی کہ برسوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، ہزاروں جانیں خطرے میں ہیں، مگر میڈیا کی نظر میں یہ بھی کوئی خاص بات نہیں تھی ، ” بارش تو ہر سال ہوتی ہے مگر ششانت جیسا کلاکار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے ” ـ

خیر ششانت تو بلاوجہ درمیان میں آگیا ( شاید پروپیگندے کا اثر ہم پر بھی ہوگیا) بات چل رہی تھی بھومی پوجن اور اس کے پرچار کی، ………. تو ذرا اس پر بھی غور کرلیں کہ اس سارے تماشے کے ذریعئے ایک اور مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور وہ ہے مسلمانوں کہ منہ چڑانا، کچھ نہیں تو مسلمانوں کو قلبی اور ذھنی تکلیف پہونچاکر خوش ہونا اور اپنی ” بقّالی نفسیات یعنی بنیا سائیکولوجی ” کو تسکین پہونچانا ہے ـ ………. سب جانتے ہیں کہ بنیا خود کتناہی پریشان ہو مگر جب دیکھتا ہے کہ اس کا مقابل بھی تکلیف میں مبتلا ہے تو وہ دوسرے کی ” خارش دیکھ کر اپنا کوڑھ ” بھول جاتا ہے ـ ………. ایسی سائکولوجی کے شکار شخص کا بہترین علاج یہ ہے کہ اُس کے سامنے اپنی تکلیف کا اظہار ہی نہ کیا جائے ـ

بالکل اسی طرح اگر ہم مسلمان بھی اس سارے تماشے کو بالکل نظر انداز کرکے کوئی رد عمل ظاہر نہ کرتے نہ چینلوں پر جاتے، نہ بیانات جاری کرتےتو اس ” بنیا گیری ” کا بہترین جواب ہوسکتا تھا ـ

یاد رکھئیے ! اپنی تکلیف اُسی کے سامنے بیان کی جاتی ہے جو ہمدرد ہو، ظالم کے سامنے تکلیف کا اظہار کرنے سے وہ خوش ہوتا ہے اور نت نئے ستم آزمانے کی کوشش کرتا ہے ـ
یہ بھی یاد رکھئے ! کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جنھیں وقت کے انتظار میں سنبھال کر رکھا جاتا ہے، ………… بابری مسجد کا ایسا ہی زخم ہے جسے کسی ” اردگان ” کے انتظار شاید صدیوں سنبھالنا پڑے !
کیا آپ تیار ہیں؟

زخم گہرا ہو تو رُک رُک کے کسک ہوتی ہے
درد میٹھا ہو تو تھم تھم کے مزا آتا ہے