*راجستھان کا سیاسی دنگل۔اشوک گھلوت اور سچن پائلٹ امنے سامنے………؟؟؟*
*کانگریس نے پائلٹ سمیت تمام باغی ایم ایل ایز کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنے چاہیے !!!*
اسپیشل اسٹوری
سلیم الوار ے
راجھستان کا سیاسی طوفان تھمتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ سچن پائلٹ اور اُن کے ساتھی اسمبلی ممبران کے خلاف راجستھان اسمبلی کے اسپیکر سی پی جوشی کے ذریعے وہپ کی خلاف ورزی کئے جانے پر جاری کیے گئے نوٹس پر راجستھان ہائی کورٹ نے بروز منگل ٢١ جولائی شام ٥ بجے تک کے لئے کسی بھی کاروائی سے منع کر دیا ہے جبکہ ہائی کورٹ میں اب آگلی سنوائی کل یعنی بروز پیر کی صبح ١٠بجے ھوگی۔
راجستھان میں گھلوت سرکار کو گرانے کا خواب در اصل بی جے پی کی اس بڑی سازش کا حصہ نظر آتا ہے جس کے تحت وہ یکے بعد دیگرے ملک کی تمام ریاستوں میں اپنی حکومت بنانا چاہتی ہے۔ مدھیہ پردیش میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد وہ تیزی سے راجستھان میں کانگریس کی سرکار پلٹ کر چھتیس گڑھ اور پھر مہاراشٹرا میں بھی اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہونگےتاکہ مغربی بنگال میں آئندہ اسمبلی چناؤ میں ترنمول کانگریس کو مات دینا آسان ہو جائے اور ممتا بنرجی کو ہرا کر پورے ملک میں بھگوا لہرایا جا سکے۔
پارلیمانی چناؤ میں کامیابی حاصل کر مرکز میں حکومت بنانا اور ملک کی تمام ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں اکثریت حاصل کر حکومت بنانا این ڈی اے/ بی جے پی کا جمہوری حق ہے اور اس سے انکو کوئی روک نہیں سکتا ،لیکِن مختلف ریاستوں میں دیگر پارٹیوں کی حکومتیں بننے کے بعد بی جے پی کی ذ مہ داری بنتی ہے کہ وہ اُن ریاستوں میں ایک ذمہ دار اپوزیشن کا کردار نبھائیں اور مرکزی حکومت اور ان ریاستوں کے درمیان تال میل بھی قائم رہے تاکہ ان ریاستوں میں ترقیاتی کام بھی ہوتے رہیں لیکِن بی جے پی کو یہ بات قطعی ہضم نہیں ہو رہی ہے کہ ملک کی کسی بھی ریاست میں غیر بی جے پی سرکار بنے یا بنی رہے۔
مئی ٢٠١٩ کے عام چناؤ میں این ڈی اے کی ٣٥٣ نشستوں پر غیر متوقع کامیابی اور اس میں بی جے پی کو تن تنہا ٣٠٣ نشستوں پر کامیابی کے بعد بی جے پی کے تیور اور طریقہ کار دونوں بدل گئے ہیں لیکن عام چناؤ کے بعد اکتوبر ٢۰١٩ کے اسمبلی چناؤ میں مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ اور فروری ٢٠٢٠ کو ہوئے د ہلی اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کو وہ کامیابی نہیں ملی جس کی اسے توقع تھی۔
مہاراشٹرا میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود شیو سینا سے اختلافات کے سبب سابق وزیر اعلی دیو یندر فڈنویس دوبارہ سرکار نہیں بنا سکے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں آئندہ اسمبلی چناؤ دسمبر ۲۰۲۳ کو ہونے ہیں لہٰذا مئی ۲۰۱۹ کے پارلیمانی چناؤ کے بعد سے ہی بی جے پی ان دونوں حکومتوں کو گرا کر اپنی حکومت بنانے کے منصوبے بنانے میں لگی تھی کیونکہ یہ بات جگ ظاہر تھی کہ مدھیہ پردیش میں جیوتر آدتیہ سندھیا اور راجستھان میں سچن پائلٹ اپنی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بننے کے متمنی تھے جبکہ کانگریس اپنی روایت یعنی ‘اولڈ از گولڈ’ کی سوچ سے باہر نہیں نکل سکی ہے۔
جیو تر آدتیہ سندھیا وزیرِ اعلیٰ تو نہیں بن سکے مگر مدھیہ پردیش کو بی جے پی کے حوالے کر شیو راج چو ہاں کی کابینہ میں اپنے ساتھیوں کو من چاہی وزارتیں دے کر خود راجیہ سبھا پہنچ گئے ہیں اور امید ہے حسب وعدہ جلد ہی انھیں مرکزی کابینہ میں بھی شامل کیا جائےگا۔
بی جے پی کا اگلا نشانہ ممکن ہے راجستھان رہا ہو مگر اشوک گھلوت کی ہوشیاری اور چابک دستی کے سبب سچن پائلٹ اپنے خیمہ میں محض ۱۹ ایم ایل ایز ہی جٹا پائے اور بی جے پی کا سپنا ادھورا رہ گیا۔
سچن پائلٹ بھلے ہی بی جے پی میں شامل نہ ہونے کی بات کر رہے ہیں لیکن انہوں نے خود کو اور ساتھیوں کو اسمبلی کے اسپیکر کے ذریعے وہپ کی خلاف ورزی پر جاری کیے گئے نوٹس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے جن معروف وکلاء ہریش سالوے اور مكل روہتگی کی خدمات حاصل کی ہیں وہ ہمیشہ بی جے پی کے وفادار رہے ہیں
ہریش سالوے بی جے پی کی واجپائی سرکار میں سالیسٹر جنرل رہے ہیں اور مكل روہتگی نریندر مودی کی سرکار میں اٹارنی جنرل رہے ہیں ، یعنی راجستھان کے پورے کھیل میں بی جے پی کے رول کو مسترد نہیں کیا جا سکتا حلانکہ وسندرا راجے کے حامی ایم ایل ایز سچن پائلٹ کی بی جے پی میں شمولیت کے سخت خلاف ہیں اور ممکن ہے اسی سبب اشوک گھلوت اپنی سرکار بچا نے میں کامیاب رہے ہوں۔
اب کانگریس اعلیٰ کمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھیل مزید بگڑنے نا دیں کسی نا کسی چینل سے پائلٹ اور اُن کےساتھیوں کو واپس لانے کی کوشش کریں اور ممکن ہو سکے تو کورٹ کی اگلی سنوائی سے قبل ہی آپسی تنازع کو سلجھانے کی حتی الامکان کوشش کریں بصورت دیگر کم از کم اُن کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھیں ورنہ اج نہیں تو کل، ریاستی حکومتوں کو بنانے اور گرانے میں ماہر بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیگی اور ملک میں کمزور ہوتی اپوزیشن مزید کمزور ہو جائیگی اور سنگھ پریوار کو مزید من مانی کرنے کا موقع فراہم ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!