خواجہ یونس قتل معاملہ رویو کمیٹی کی سفارشات پرمعطل پولس والوں کو ملازمت پربحال کیا گیا،یہ توہین عدالت نہیں ہے

خواجہ یونس قتل معاملہ
رویو کمیٹی کی سفارشات پرمعطل پولس والوں کو ملازمت پربحال کیا گیا،یہ توہین عدالت نہیں ہے
ممبئی پولس کمشنر نے ممبئی ہائیکورٹ میں جواب داخل کیا، اگلی سماعت پر بحث متوقع:گلزار اعظمی
ممبئی 17 جو لائی
خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث چار پولس والوں کو ملازمت پر بحال کئے جانے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں داخل توہین عدالت کی پٹیشن پر آج ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پی بی ورالے اور جسٹس ملند جادھو کے روبر و وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت نہیں ہوسکی حالانکہ سماعت سے قبل ہی عدالت کے حکم پر ممبئی پولس کمشنر کی جانب سے جواب داخل کیا گیا جسمیں تحریر ہے کہ ان چار پولس والوں سمیت کل 16 پولس والوں کو ملازمت پر دوبارہ بحال کیا گیا ہے تاکہ وہ کرونا وباء میں ملازمت کررہے دیگر پولس والوں کو راحت دی جاسکے کیونکہ ممبئی پولس فورس کو اضافی پولس کی ضرورت تھی نیز ملزمین کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہے لہذا انہیں ملازمت پر دوبارہ بحال کرنے میں انہیں قانونی دشواری محسوس نہیں ہوئی اس کے باوجود اگر ان کے اس فیصلہ سے عدالت کی توہین ہوئی ہے تو وہ عدالت سے غیر مشروط معافی طلب کرتے ہیں حالانکہ ان کا مقصد عدالت کے حکم کو نظرانداز کرتے ہوئے پولس والوں کو ملازمت پر بحال کرنا ہرگز نہیں تھا۔
ممبئی پولس کمشنر نے اپنے جواب میں مزید لکھا ہیکہ حالانکہ ہائی کورٹ نے7 اپریل 2004کو ان چار پولس والوں کو ملازمت سے معطل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اپنے فیصلہ میں یہ کہیں نہیں لکھا ہیکہ وہ انہیں دوبارہ ملازمت پر لیا نہیں جاسکتا۔ ممبئی پولس کمشنر کی جانب سے جوائنٹ پولس کمشنر نول بجاج نے ہائی کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا ہے۔
جواب میں مزید لکھا ہیکہ روویو کمیٹی کی سفارشات کے بعد ہی ان چار پولس والوں سمیت دیگر 16 پولس والوں کو ملازمت پر بحال کیا گیا ہے جو اپنی سروس سے معطل تھے۔
اب جبکہ ممبئی پولس کمشنر کی جانب سے جواب داخل کیا جا چکا ہے معاملے کی اگلی سماعت پر جمعیۃعلماء کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ مہیر دیسائی ممبئی پولس کمشنر کے جواب کی روشنی میں معاملے کی اگلی سماعت پر بحث کریں گے۔
خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث اسسٹنٹ پولس انسپکٹر سچن وازے، پولس کانسٹبل راجندر تیوار، سنیل دیسائی اور راجا را م نکم کی ملازمت پر دوبارہ بحالی کو چیلنج کیا گیا ہے اس ضمن میں جمعیۃ علماء قانونی امدا د کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے بتایا کہ گذشتہ 23 جون کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) نے خواجہ یونس کی والدہ کی جانب سے خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث چار پولس والوں کو ملازمت پر بحال کرنے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن داخل کی تھی کیونکہ ممبئی پولس کمشنر نے توہین عدالت کی نوٹس کا جواب نہیں دیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ توہین عدالت کی پٹیشن میں پولس کمشنر آف ممبئی پرم ویر سنگھ،پرنسپل سیکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ امیتابھ گپتا،اسٹیٹ سی آئی ڈی،روویو کمیٹی اور حکومت مہاراشٹر کو توہین عدالت کا مرتکب بتایا گیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ چاروں پولس والوں کو ملازمت پر بحال کرنے پر خواجہ یونس کی والدہ کو ایک لاکھ روپئے معاوضہ دیں اور پولس والوں کو فوراً ملازمت سے معطل کریں۔
انہوں نے کہا کہ اب جبکہ توہین عدالت کی پٹیشن پر ممبئی پولس کمشنر نے ہائی کورٹ میں جواب داخل کردیا، اس معاملے کی اگلی سماعت پر ہماری جانب سے سینئر ایڈوکیٹ مہر دیسائی بحث کریں گے۔
واضح رہے کہ23 دسمبر 2002 کو خواجہ یونس کو 2، دسمبر 2002 کو گھاٹکوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتارکیا تھا جس کے بعد سچن وازے نے دعوی کیا تھا کہ خواجہ یونس پولس تحویل سے اس وقت فرار ہوگیا جب اسے تفتیش کے لیئے اورنگ آبا دلے جایا جارہا تھا حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد سچن وازے سمیت دیگر تین پولس والوں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو فاسٹ ٹریک عدالت میں زیر سماعت ہے۔
جمعیۃعلماء مہاراشٹر