جمعہ نامہ : عذابِ دنیا، مہلک نہ ہو تو موقع ہے
ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے :’’کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ‘‘ اس سوال کا لازمی جواب ہے کہ ’’ ہرگز نہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے‘‘۔ ان کا انجام ایک دوسرے سےمختلف ہے کیونکہ ’’ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے آرام کرنے کی جنتیں ہیں جو ان کے اعمال کی جزا ہیں‘‘۔ یہاں ایمان کے ساتھ عمل کا اضافہ کردیا گیا اورایمان کے بعد ایمان عمل کو جنت کی شرط قرار دیا گیا ۔ یعنی اہل ایمان اور فاسق کے انجام میں حد فاصل ’اعمال خیر‘ہوگا ۔ اس کے آگے فاسقین کا انجام بھی بتایا گیا ہے کہ :’’ اور جن لوگوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکاناجہنم ہے کہ جب اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ پلٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس جہنمّ کی آگ کا مزہ چکھو جس کا تم انکار کیا کرتے تھے ‘‘۔ فاسق چونکہ زبان سےسے اقرارکرنے کے بعد عملاً انکار کرتا ہے اس لیے اس کے انجام کو تکذیب سے جوڑ دیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ اہل ایمان کو چاہیے کہ عمل سے غافل نہ ہوں اور فاسقین کےلیے اپنے ایمان کے عملی انکار سے باز آنا لازم ہے ۔
مذکورہ بالا آیت میں دوزخ کے عذاب کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ جب جہنمی اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو انہیں دوبارہ پلٹا دیا جائے گا یعنی اس عذاب کی نوعیت دائمی ہوگی۔ اس کے بعد والی آیت میں فرمایا :’’اور ہم یقینا بڑے عذاب سے پہلے انہیں معمولی عذاب کا مزہ چکھائیں گے ‘‘۔ یعنی جہنم کا بڑا عذاب تو قیامت میں حساب کتاب کے بعد دیا جائے گا لیکن اس سے قبل اس دنیا میں بھی چھوٹی موٹی تعذیب سے گزارہ جائے گا اور اس کی غرض و غایت یہ بتائی گئی ہے ’’تاکہ شاید اسی طرح راہ راست پر پلٹ آئیں‘‘۔گویا انسانوں کو اس معمولی عذاب میں خوابِ غفلت سے بیدار کرنے یا خبردار کرنے کی خاطر مبتلا کیا جائے گاتاکہ لوگ اس سے عبرت پکڑ کر اپنا رویہ درست کرلیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ نعمت بن جائے گا۔ اس کے برعکس جو اس کو نظر انداز کردیں گے ان کی بابت فرمایا :’’ اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے آیات ِالہٰیہ کی یاد دلائی جائے اور پھر اس سے اعراض کرے تو ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں‘‘۔ یہ آیت دنیا اور آخرت کے عذاب کا فرق اور کورونا کی حقیقت واضح کرتی ہے ۔
دنیوی عذاب کی بابت ارشادِ قرآنی ہے :کہو، وہ اِس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، ‘‘۔ انسان جدید آلات کی مدد سے سمندری طوفان کی سمت اور رفتار کا پتہ لگا کر احتیاطی تدابیرتو کر سکتا ہے لیکن اسے روک دینا کسی کے قبضۂ قدرت میں نہیں ہے۔ اسی طرح زلزلہ کے مرکزہ اور شدت کی معلومات کا اندازہ تو ہوجاتا ہے لیکن اسے آنے سے روکنا تو دور وہ کب آئے گا اور کتنی تباہی لائے گا ؟ اس کا پتہ لگانا بھی انسانوں کے بس میں نہیں ہے۔یہ آفاتِ ارضی و سماوی انسان کے غر ور کو پارہ پارہ کرکے اسے اپنے خالق و مالک کے آگے خود سپردگی کی جانب متوجہ کردیتی ہے۔ آگے انسان آزاد چاہے تو پلٹ آئے یا دائمی تباہی کی جانب بگ ٹٹ دوڑتا چلاجائے۔
مشیت الٰہی انسانوں کے ذریعہ بھی عذاب مسلط کرتی ہے۔فرمان قرآنی ہے :’’ تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ‘‘۔ یعنی لوگوں کو ایک دوسرے برسرِ پیکار ہوجانا بھی عذاب کی ایک شکل ہے۔ چین اور ہندوستان کی سرکاریں ایغور اور کشمیریوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کا اشتراک کرتی تھیں لیکن اب گلوان میں ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں ۔ مسلمانوں کے مشترکہ دشمنوں کی آپسی چپقلش ان کے لیے عذابِ جان بن گئی ہے فرمایا :’’ دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ‘‘۔ اللہ کی یہ نشانیاں عذاب بن کر حقائق کا پردہ فاش کرکے غافل انسانوں کو بڑے عذاب سے خبردار کرنے کے ساتھ ساتھ اتمام ِ حجت کا کام بھی کردیتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ بنی نوعِ انسانی کوکورونا اور چائنا جیسی تنبیہات سے راہِ راست کی توفیق عطا فرمائے ۔