* گودی میڈیا کی تباہ کاریاں * محمد سمیع اللہ شیخ *
آخر کب تک ملک کے امن و امان کو تباہ و برباد کیا جاتا رہے گا، کب تک یہ ظلم کی آندھیاں چلتی رہیں گی
یہ زہریلی میڈیا کب تک ملک کے امن امان کی فضا کو خراب کرتی رہیں گی، کب تک مسلمانوں کو اذیتیں دی جائیں گی
کیا ان کرایے کے غنڈوں پر لگام نہیں لگائی جائے گی؟ کیا قانون اور عدالت ان کے لئے نہی ھے؟
کیا تمام دفعات اور آئین صرف صرف مسلمانوں کے لئے ہی ہیں؟
ہمیں طرح طرح کے زخم دئے گئے ہمارا ایک زخم ہلکا نہیں ہوتا کہ دوسرا زخم دے دیا جاتا ھے کبھی ہماری مسجدوں کو شہید کیا جاتا ھے کبھی ہمارے مدرسوں کو دہشت گردی کا اڈا بتایا جاتا ھے،
کبھی فسادات میں ہمارے گھروں کو آگ لگا دی جاتی ھے
تبلیغی جماعت پر لگایے گئے الزامات کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے کہ ایک زخم اور دے دیا گیا ہمارے اسلاف کی شان میں گستاخی کی شکل میں
نیوز 18 کے اینکر امیش دیوگن نے لائیو چینل پر کھلے عام ہندو مسلمانوں کے مشترکہ مشہور صوفی مبلغ امن و محبت کے نقیب سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کو بڑی بے شرمی سے لٹیرا اور ڈاکو کہا.
اس اینکر کے یہ نازیبا کلمات ناقابل برداشت ہیں
اسے کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
یہ لوگ نیشنل چینلوں میں بیٹھ کر اسلامی تاریخ کے مختلف واقعات کو کرید کرید کر انھیں ہدف تنقید بناتے ہیں،
مسلمانوں کی برگزیدہ ہستیوں اور عظیم المرتبت درویشوں کی ذات پر کیچڑ اچھالتے ہیں
یہ اینکر نہیں ہیں بلکہ کراے کے غنڈے ہیں جنہیں صرف اس مقصد کی تکمیل کے لیۓ بٹھایا گیا تاکہ یہ انتشار و افتراق کو ہوا دیں، اتحاد و اتفاق کی اس سرزمین کو خون آلود کردیں، اپنی زبانوں سے
یہ خبیث الفطرت انسان ہیں جو امن امان کے دشمن ہیں
اب وقت آگیا ھے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے
اب وقت آگیا ھے کی پوری امّت مسلمہ متحد ہوجاءے کیوں کہ اب کسی فرقے پر حملہ نہیں ہورہا ھے بلکہ اسلام پر حملہ ہورہا ھے
اب امّت کو چاہئے کی انتشار و افتراق کو چھوڑ کر اتحاد و اتفاق کے پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور ملک کے ایک کونے کونے سے اس سنگھی مزاج متعصب غلیظ خبیث الفطرت انسان کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کے پر دستک دیں
ہمارے اکابرین کو چاہئے کہ اسکے خلاف پرزور آواز اٹھائیں
اب مصلحت کی بات نہ کریں کہیں یہ مصلحت ہمیں بزدل نہ بنادیں اور ہماری نسلیں اسکی عادی ہوجائیں. اب وقت آگیا ہے کہ دفاع کے بجائے اقدام کئے جائیں، ورنہ مصلحت پسندی ہمیں نہ گھر کا رہنے دے گی نہ گھاٹ کا.