کرونا وائرس اور بے اعتمادی کی فضا
محمد سمیع اللہ شیخ
دنیا کے تقریباً تمام ممالک اس وقت کورونا وائرس کے زد میں آ چکے ہیں۔کرونا وائرس غیر متوقع طور پر بغیر کسی تخصیص کے تمام لوگوں کو لپیٹ میں لیتےہوئےدنیا میں پھیل گیا ہے۔یہ وبادنیا کے مختلف ممالک میں تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل چکی ہے اور چین سے لیکر امریکہ تک متاثرہ افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
کرونا وائرس کی وبا نے دنیا کو اس مرحلے پر لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ کب کیا ہونا ہے، کس سمت جانا ہے، منزل کونسی ہے اور قیام کہاں کرنا ہے۔
ایک جانب لاک ڈاؤن جاری رہنے کی صورت میں معاشی بدحالی، بھوک اور بیروزگاری کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ پھر اتنے طویل عرصے تک معاشرتی طور پر کٹ کر رہنا انسان کی بنیادی فطرت کے خلاف ہے جس سے وہ اکتا جاتا ہے اور آخر کار سرکشی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب اس خطرے کے بادل سر پر منڈلا رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن ختم کرنے کی صورت میں یہ وبا ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہے۔ اور ویسے بھی طبی ماہرین اور سائنسدان اس وبا کی ایک اور لہر کی پیشگوئی ایسے میں کر رہے ہیں، جبکہ اس کی کوئی موثر دوا یا ویکسین کی ایجاد اگر برسوں نہیں تو خود ماہرین کے بقول مہینوں ضرور درکار ہے۔
اور بلاشبہ ہندوستان ہو یا پاکستان، یوروپی ممالک ہوں یا امریکہ یا دنیا کا کوئی بھی ملک اس کے لئے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے اور پھر اس فیصلے کے مثبت یا منفی نتائج کا سامنا کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہو رہا ہے۔
دوسرے کئی ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی کئی ریاستوں نے محدود پیمانے پر اور حفاظتی شرائط کے ساتھ ہی سہی معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن ماہرین کی اکثریت اسے کوئی زیادہ درست فیصلہ تصور نہیں کرتی۔
ہندوستان میں متعدی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، معاشی فیصلہ ہے اور ہوسکتا کہ ایک معاشرتی فیصلہ بھی ہو۔ لیکن، طبی نقطہ نظر سے یہ درست فیصلہ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ مرض کے بڑھنے کے رجحان کے سبب لوگوں کی اکثریت خوفزدہ ہے کھلنے کے باوجود سوائے ان لوگوں کے جنہیں روزگار کی مجبوریاں ہوں اور کتنے لوگ باہر نکلنا چاہیں گے۔
اور متعدی امراض کا اصول یہ ہے کہ وہ سورس کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اگر سورس اور عام آدمی کے درمیان فاصلہ آجائے تو پھیلاؤ رک جاتا ہے جیسا کہ چین کا ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ اور ہندوستان میں جب اس کا آغاز ہوا تھا اسی وقت مکمل لاک ڈاؤن کردیا جاتا تو یہ کبھی اتنا نہ پھیلتا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں آئندہ دو سے چھ ہفتے انتہائی اہم ہونگے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق دونوں ہی صورتوں میں فیصلہ کرنے والوں کی مجبوریاں ہیں کہ نہ تو غیر معینہ مدت تک معاشی سرگرمیوں کو بند رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پورے طور سے کھولنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔
کرونا سے حکومت پر بے اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی ہے، کچھ نہیں پتا کہ کب اور کیسے یہ وبا ختم ہو گی اور حکومت اس کے لیے کیا حکمت عملی اپنائے گی ۔ اس لئے اب دنیا میں بے اعتمادی کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں کہ ماہرین اس مرض کی ایک اور لہر کو ناگزیر بتاتے ہیں فی الحال اس وبا کے ساتھ رہ کر ہی آگے بڑھنا ہے اور اسی کے ساتھ آگے بڑھنے کی تیاری کرنا ہے۔