جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ابرابر احمد کو ان کے ذریعہ کیے گئے ایک شرمناک ٹوئٹ کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔ ٹوئٹ انتہائی حد تک فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو چوٹ پہنچانے والا تھا جس کو دیکھتے ہوئے جامعہ انتظامیہ نے انھیں فوری اثر سے معطل کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے خلاف جانچ کا حکم صادر کر دیا ہے۔ حالانکہ ابرار احمد اپنی صفائی میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے لیا گیا اور وہ صرف ایک طنز تھا جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس صفائی کے باوجود لوگ انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور حیران ہیں کہ ایک اسسٹنٹ پروفیسر اس قدر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے والا ٹوئٹ کیسے کر سکتا ہے۔
اپنے دوسرے ٹوئٹ میں ابرار احمد نے لکھا کہ "میرا ٹوئٹ سی اے اے کی مخالفت کو لے کر ایک طبقہ کے خلاف حکومت کے رویہ پر محض طنز تھا۔” اسی ٹوئٹ میں وہ آگے لکھتے ہیں کہ "نہ تو ایسا کوئی امتحان ہوا ہے اور نہ ہی کوئی نتیجہ سامنے آیا ہے۔ یہ صرف ایک ایشو کو سمجھانے کے لیے ٹوئٹ تھا، میں کسی سے تفریق نہیں کرتا۔” ابرار احمد کے ذریعہ صفائی پیش کیے جانے کے باوجود وہ لوگوں کے نشانے پر رہے اور بات یونیورسٹی تک پہنچ گئی۔ ٹوئٹ کی حساسیت اور ایک اسسٹنٹ پروفیسر کی غیر ذمہ داری کو دیکھتے ہوئے جامعہ نے انھیں معطل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں 26 مارچ کو ایک ٹوئٹ بھی کیا۔