مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے شاہین باغ کی خواتین کو شاہین صفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’شاہین کبھی ناکام نہیں ہوتا اور ایک دن کامیابی ضرور آپ کے قدم چومے گی
قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے جو مظاہرہ شروع کیا تھا، اس کے تین ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ اس درمیان مظاہرے نے کھٹے میٹھے اور تلخ و شیریں تجربات کا سامنا کیا۔ مظاہرے میں شامل خواتین کو کبھی دھمکیاں ملیں، کبھی سپریم کورٹ کے مذاکرات کاروں کی شاہین باغ آمد ہوئی اور پھر شمال مشرقی دہلی میں ہولناک فسادات کے بعد شاہین باغ کو طرح طرح کی افواہوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اس تین ماہ کے دورانیہ میں شاہین باغ کی خواتین کو اس مظاہرہ کو جاری رکھنے کے لئے سخت آزمائشوں، امتحانات، شدت پسند تنظیموں کے حملے، دہلی پولس کے دباؤ، طرح طرح کے طعنوں، گالی گلوج اور پروپیگنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی ’بریانی ختم، دھرنا ختم‘ جیسے نعرے دے کر مظاہرہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور کبھی اس مظاہرہ میں شامل خواتین پر ’پانچ سو روپے میں بکنے‘ جیسا گھٹیا الزام عائد کیا گیا۔ تاہم، انقلاب کے جذبے سے سرشار ان ’شاہینوں‘ نے مشترکہ تہذیب اور وراثت و صلح کل کا پیغام دینے، جمہوریت اور سیکولرزم کو بچانے کے لئے سخت محنت کی اور وہ ہر امتحان سے سرخرو ہو کر نکلیں جس کا اثر نہ صرف حکومت وقت پر پڑا ہے بلکہ عالمی سطح پر اس احتجاج کو حمایت حاصل ہوئی ہے۔
ندن میں وہاں کے رکن پارلیمنٹ نے نہ صرف شاہین باغ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مارچ نکالا بلکہ ’لانگ لیو شاہین‘ جیسے نعرے بھی لگائے۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے ان کے خلاف اٹھنے والے ہر طوفان کا سامنا کیا اور اس کا بھرپور جواب دیا۔ فسادات متاثرین کے لئے کھانے پینے کی اشیاء بھی یہاں سے بھجوائی گئیں۔ سپریم کورٹ کے مذاکرات کاروں کو بھی شاہین باغ کی خواتین نے اپنی دلیل سے مطمئن کیا اور ان کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ’’شاہین مظاہرہ جاری رہنا چاہئے۔‘‘ سب نے مل کر اس طرح پرامن مظاہرہ کیا کہ پورے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اس مظاہرے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مجبور ہونا پڑا۔
واضح رہے کہ پرعزم خواتین نے گزشتہ 16 دسمبر کو سریتا وہار کالندی کنج روڈ پر اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔ اس وقت ان خواتین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا پر پولس کی وحشیانہ کارروائی اور قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی و این پی آر کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا، جو اس وقت پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔ اس وقت تقریباً تین سو سے زائد مقامات پر خواتین کا دن رات کا مظاہرہ جاری ہے۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین پر جس طرح حملے کئے گئے اسی طاقت کے ساتھ خواتین نے اس کا مدلل اور مہذب انداز میں جواب دیا۔ خاتون مظاہرین مخالفین کی سوچ سے اپنی سوچ لگاتار بڑی کرتی گئیں، ملک کا غدار کہا گیا تو وہاں انڈیا گیٹ اور ہندوستان کا نقشہ بنا کر پیش کردیا گیا، وہاں آزادی کے نعرے لگائے جانے لگے، آئین بچاؤ کے نعرے لگائے جانے لگے، جے بھیم کے نعرے لگائے جانے لگے، حتیٰ کہ کئی بار جے شری رام کے بھی نعرے لگائے گئے، بھارت ماتا کی جے کے بھی نعرے لگائے گئے۔ 9 مارچ کی رات تو باضابطہ ’ہولیکا دَہن‘ کا پروگرام رکھا گیا اور پروگرام میں مسلم خواتین نے جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگائے۔ جب اس مظاہرہ پر مسلم مظاہرہ ہونے کا الزام لگا تو اس مظاہرہ کو پورے ملک کا اور تمام قوم کا مظاہرہ بنانے کے لئے مظاہرہ گاہ میں مختلف مذاہب کے لوگ پہنچ کر اپنے اپنے مذہب کی کتابیں پڑھنے کا پروگرام بنایا۔ ہندوؤں نے ہون کیا، سکھ بھائیوں نے گروگرنتھ کا پاٹھ پڑھا تو عیسائی بھائیوں نے بائبل پڑھی اور مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت کی۔ یہ سب کچھ ایک ہی اسٹیج پر ہوا۔ شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں ہون بھی کیا گیا اور مسلم خواتین نے ٹیکے بھی لگائے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے لوگ نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔ اس کی وجہ سے شاہین باغ خاتون مظاہرین کا تذکرہ نہ صرف ہندوستان کے گوشے گوشے میں ہو رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں اور دنیا کی ہر یونیورسٹی میں اس کا ذکر ہورہا ہے اوران کی حمایت میں مظاہرے کئے جارہے ہیں۔
