” شُکراً یا کیجریوال "
ـــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
این پی آر 2010 والا ہو یا 2020 والا دونوں خطرناک ہیں، بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جب دونوں خطرناک ہیں تو 2010 میں جب این پی آر ہورہا تھا تب اعتراض کیوں نہیں کیاگیا، ہمارا خیال تو یہ ہے واقعی اُس وقت ہم سے اور ہمارے رہنماؤں سے چوک ہوئی اعتراض کرنا چاہیئے تھا ـ
دوسری طرف یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیئے کہ 2010 میں سی اےاے نہیں آیا تھا، اس لئے ممکن ہے اُس وقت سب لوگوں نے این پی آر کو بھی مردم شماری کا حصہ سمجھ لیا ہو اس لئے اعتراضات نہیں ہوئے ـ .........حالانکہ دونوں الگ الگ ہیں این پی آر 1955 کے شہریت سے متعلق قانون میں ہونے والی 2003 میں ترمیم کے تحت ہوتا ہے، اور مردم شماری 1948 کے قانون کے تحت ہوتی ہے ـ حکومت دونوں کو ایک بتاکر بیوقوف بنانے کی کوشش کررہی ہے ـ اب سی اےاے کے بعد این پی آر ہمارے لئے انتہائی خطرناک بن چکا ہے ـ
اس لئے ہمیں ہر طرح کے این پی آر کی مخالفت کرنی چاہیئے ـ اگر کوئی آپ سے کہتا ہے کہ 2010 میں جب این پی آر ہوا تھا تب آپ لوگوں نے اس کی مخالفت کیوں نہیں کی تھی تو فوراً اس کو جواب دیجئے کہ اُس وقت سی اےاے نہیں آیا تھا اگر آج بھی اپ سی اےاے واپس لے لیں تو ہم لوگ بھی 2010 والے این پی آر کو قبول کرنے پر غور کرسکتے ہیں ـ
باقی وزیر داخلہ کا پارلیامنٹ میں یہ جملہ کہ این پی آر میں کسی نام کے آگے D نہیں لگایا جائے گا یہ اُس وقت تک ” جملہ ” سمجھا جائے گا جب تک این پی آر کے دستاویز میں شق 3,4,5 میں ترمیم نہ کردی جائے، اس لئے کہ اس میں صاف لکھا ہوا ہے رجسٹرار یا اُس کا مقرر کردہ آفیسر این پی آر کے دوران جس شخص کو وہ مشکوک سمجھے اُس کے نام کے سامنے ڈاؤٹ فل کا نشان لگاسکتا ہے ـ
وزیر داخلہ نے چونکہ غلام نبی آزاد کا نام لے کر اپوزیش کو گفتگو کی دعوت دی ہےہمارا خیال ہے کہ اپوزیشن کو اِس کا فائدہ اُٹھانا چاہیئے اور فورا امیت ساہ سے ملنا چاہیئے، دوسری طرف دہلی میں موجود ملی رہنماوں کو اپوزیش لیڈران سے ملاقات کرکے پورے دلائل کے ساتھ اُن کے سامنے اپنے تحفظات بیان کرنا چاہیئے تاکہ وہ وزیر داخلہ تک ہمارے اعتراضات پہونچاسکیں ـ .........یاد کیجئے جب پہلی بار تین طلاق بل لوک سبھا میں پاس ہوگیا تھا، مگر تین دن کے بعد وہ بل جب راجیہ سبھا میں پیش ہوا تو وہی پارٹیاں جنھوں نے لوک سبھا میں طلاق بل کی تائید کی تھی راجیہ سبھا میں اُس کی مخالف ہوگئیں اور بل مسترد ہوگیا، دراصل درمیان کے ان تین دنوں میں مسلم رہنماوں نے تمام بڑے اپوزیش لیڈران سے مل کر اُن کی ذہن سازی کی تھی اور لاجیکل انداز میں دلائل کے ساتھ اُنھیں مسلمانوں کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا تھا ـ اُسی انداز میں یہاں بھی محنت کی ضرورت ہے ـ......... بالفرض وزیر داخلہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم بھی رہے تب بھی اپوزیشن سے ہماری ملاقات کا فائدہ یہ ہوگا کہ جن ریاستوں میں اپوزیشن کی حکومت ہے وہاں کی حکومتیں جیسے بیجو جنتادل اڑیسہ میں، شیوسینا مہاراشٹر میں، انا ڈی ایم کے کیرلا میں این پی آر اور این آر سی کو اپنے یہاں نافذ کرنے میں ہمارے موقف کا خیال رکھیں گی ـ
کیجریوال نے دہلی میں اسمبلی میں جس طرح این پی آر اور این آرسی دونوں کو مستردکرنے کی جو تجویز پاس کرائی ہے سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ہم سب کو اس کے لئے انھیں مبارکباد دینا چاہیئے اور ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیئے ـ