دستورملک کےہر شہری کے درمیان مساوات کی تلقین کرتا ہے : محمد سراج ایم پی جے کے پریس کانفرنس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تعلق سے بتانے کی کوشش کی گئی کہ اسے نظر انداز کرکے بے بنیاد اور فرضی مسائل میں عوام کو الجھایا جارہا ہے

دستورملک کےہر شہری کے درمیان مساوات کی تلقین کرتا ہے : محمد سراجایم پی جے کے پریس کانفرنس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تعلق سے بتانے کی کوشش کی گئی کہ اسے نظر انداز کرکے بے بنیاد اور فرضی مسائل میں عوام کو الجھایا جارہا ہے 
ممبئی : ایم پی جی عوامی حقوق کیلئے لڑنے والی تنظیم ہے جو ایک عشرہ سے زائد سے بنیادی حقوق کی لڑائی میں عوام کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ۔ آج مراٹھی پتر کار سنگھ میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے تنظیم کی مہاراشٹر اکائی کے صدر محمد سراج نے کہا کہ ’’دستور ہند ملک کے ہر شہری کے درمیان مساوات کی تلقین کرتا ہے ۔اس پریس کانفرنس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ بنیادی عوامی حقوق کی اندیکھی کی جارہی ہے مگر عوام کو بے بنیاد اور فرضی مسائل میں الجھایا جارہا ہے ۔ملک میں بھوک کی وجہ سے اموات ہوتی ہیں۔ بھارت میں بھوک ایک بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ بھارت دنیا کے ان45 ممالک میں سے ایک ہے جہاں بھوک کا مسئلہ سنگین ہے۔ معاشی ترقی کے تمام دعوؤں کے باوجود، بھارت عالمی ہنگر انڈیکس میں 117 ممالک میں 102ویں پائیدان پر ہے، جو ملک میں بھوک کے سنگین مسئلے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بدترین صورتحال حال کے باوجود مہاراشٹر میں حکومت نے ایک کروڑستر لاکھ سے زائد غربت کی سطح کے افراد کی راشن بند کردی گئی ۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ ہر ماہ یہ یقین دہانی کرائو کہ تم غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہے ہو۔جس کے خلاف ایم پی جے بامبے ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑ رہی ہے۔ ملک کی مضبوط ترین معیشت والی ریاست، مہاراشٹرا میں 2 کروڑ سے زائد افرادغذائیت کی کمی (Malnutrition) کا شکار ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، ریاست کی مجموعی آبادی کا 30 فیصد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ حقیقت میں اس سے زیادہ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حکومت ہند کے قومی خاندانی صحت سروے اور قومی نمونہ سروے کے مطابق، ملک کے 50 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ بچوں کے علاوہ، ایک تہائی بالغان کا وزن کم ہے۔ اس سرکاری سروے کے مطابق، مہاراشٹرا میں روزانہ 124 بچے ناقص غذائیت کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ریاست میں غربت کی شرح 18فیصد ہے، جو قومی اوسط کے بہت قریب ہے۔ریاست کا تعلیمی نظام بھی خراب حالت میں ہے۔ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کے مطابق، انفراسٹرکچر نہیں ہے۔ دوسرا مسئلہ قانون کہتا  ہے کہ 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو لازمی طور پر اسکول میں ہونا چاہئے۔ لیکن بچوں کی ایک بڑی تعداد محنت مزدوری کرتی نظر آتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تدریسی نتائج کا  ہے۔ پانچویں کلاس کے تقریبا  70فیصدبچے ریاضی کا آسان سوال حل نہیں کرسکتے ہیں۔ پہلی جماعت کے 40فیصد بچے حرف کو بھی نہیں پہچانتے۔ کلاس 5 کے تقریبا 50 فیصد طلبا کلاس دو کا متن صحیح طرح سے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ جس کی وجہ سے کمزور بچے نویں کلاس میں فیل ہوجاتے ہیں اور یہ اسکول چھوڑ جانے والے بچے یا تو غلط کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں یا غیر منظم شعبے میں بطور مزدور شامل ہو جاتے ہیں۔جہاں تک صحت کا تعلق ہے تو، ریاست کا ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر خود بیمار ہے۔ ضرورت کے مطابق ڈاکٹروں، نرسوں اور پارا میڈیکل اسٹاف نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ریاست میں مہنگے اور غیر ذمہ دار پرائیویٹ ہسپتال بہت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ سنہ 2016 میں، ہیلتھ ایکسیس اور کوالٹی انڈیکس کے معاملے میں 195 ملکوں  میں بھارت اپنے پڑوسی ممالک جیسے چین، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان سے پیچھے  145 ویں نمبر پر تھا۔ صحت کے اخراجات ملک میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا 5 فیصد سے بھی کم ہے اور آ ؤٹ آ ف پاکٹ (مریض کی جیب سے نکلنے والا) اخراجات صحت کے کل اخراجات کا تقریبا 70 فیصد ہے۔ مہاراشٹر میں صحت پر سرکاری خرچ تقریبا 22 فیصد ہے، باقی لوگ اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں۔ سنگین بیماری کی صورت میں، یا تو لوگ قرض لیتے ہیں یا پھر جائیداد بیچنی پڑتی ہے۔ پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) کی خدمات تکلیف دہ اور نا قص ہونے کی وجہ سے لوگوں کے پاس نجی اسپتالوں میں جانے کے سوا اور کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔تقریبا یہی افسوسناک صورتحال غیر منظم شعبے میں کارکنوں کے معاشرتی تحفظ اور مزدوروں کے دیگر حقوق کی ہے۔ آئین اور قانون نے عوامی حقوق تو دیئے ہیں، لیکن لوگوں کو ان کے حقوق نہیں مل پا رہے ہیں۔ تعمیراتی مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی ایک قانون ہے اور اس فنڈ میں حکومت کے پاس اربوں روپے موجود ہیں، لیکن مزدوروں کو فوائد حاصل نہیں ہو پا رہے ہیں۔ حکومت قوانین اور اسکیمیں تو بناتی ہے، لیکن وہ عمل درآمد کے مرحلے پر ناکام ہوجاتی ہیں۔معاشرتی و اقتصادی حقوق جیسے غذائی تحفّظ، کام کرنے کا حق اور سوشل سیکیورٹی، وقار کے ساتھ معیاری زندگی گزارنے کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ریاست میں عوامی حقوق کی فراہمی ابھی بھی ایک مسئلہ ہے۔ موومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس فار ویلفیئر (ایم پی جے) مہاراشٹر میں برسوں سے لوگوں کو ان کے حقوق دلانے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اور گذشتہ چھ ماہ کے دوران ایم پی جے لوگوں کی مشکلات کو جاننے اور ان کی شکایت کو متعلقہ اتھارٹی تک پہنچانے کے لئے ریاست کے کونے کونے میں پہنچی ہے۔اب ایم پی جے نے 02 فروری 2020 (اتوار) کو حج  ہاؤس میں دوپہر 12 بجے سے عوامی حقوق کے معاملے پر جن ادھیکار ادھویشن کا انعقاد کیا ہے۔ اس سیشن میں حکومت مہاراشٹر کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں خصوصی سماجی کارکنان اور ماہرین کے ذریعہ عوامی حقوق کے بارے میں رہنمائی فراہم کی جائیگی۔ جن لوگوں کو حقوق نہیں مل رہے ہیں ان کی شکایات پر عوامی سماعت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ایم پی جے کی کوشش ہے کہ ملک کا آئین جس فرد کی عزت اور وقار کی بات کرتا ہے، اسے عوام کی زندگی میں نظر آنا چاہئے۔–