جمعہ نامہ: فطرتِ انسان اورعظمتِ قرآن ڈاکٹر سلیم خان

جمعہ نامہ: فطرتِ انسان اورعظمتِ قرآن
ڈاکٹر سلیم خان
سورۂ حشر کی آخری سات آیات میں بات انسان سے شروع ہوکر قرآن سے ہوتے ہوئے رحمٰن تک پہنچ جاتی ہے۔ پہلی تین آیات انسان سے متعلق ہیں اور آخری تین رحمٰن کے بارے میں ۔ ان کے درمیان میں اللہ کی رسی یعنی قرآن حکیم کا ذکرہے۔ اس حبل اللہ ایک سرا اہل ایمان کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے پر رب کائنات ہے۔ اس سلسلہ کی پہلی آیت خبردار کرتی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘‘۔ عارضی دنیا میں کھوکر ابدی آخرت سے غافل ہوجانے والے لوگوں کو یہ الفاظ جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ آگے چل کر دوبارہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا گیا’’ اللہ سے ڈرتے رہو‘‘ کیونکہ ’’اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو‘‘۔’تقویٰ ‘ جس طرح محبت اور ڈر جیسی متضاد کیفیات کا مجموعہ ہے اسی طرح مذکورہ بالا بشارت بھی بیم و رجا کی کیفیت سے معمور ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا تمام اعمال سے باخبر ہونا آخرت کے اس منظر کو پیش کرتا ہے جس میں فرمایا گیا ’’ اُس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ اُن کے اعمال اُن کو دکھائے جائیں ۔ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ،اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ‘‘۔ اس میں جہاں برائی کرنے والوں کو خبردار کیا گیا ہے وہیں نیکی کرنے والوں کے لیے خوشخبری دی گئی ہےکہ ان کے کسی عمل کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور یہ بھی بتایا گیا کہ ’’جو نفس جو کچھ کرے گا اس کا وبال اسی کی ذمہ ہوگا اور کوئی نفس دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا ‘‘۔اگلی آیت میں غفلت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے اُنہیں خود اپنا نفس بھلا دیا‘‘۔ یعنی مسلمان اپنے خالق و مالک کے احکامات کی روُ گردانی اس وقت کرتا ہے جب اس کو بھلا بیٹھتا ہے اور نتیجتاً خود اپنے آپ سے غافل ہوجاتا ہے۔ عارضی فائدے کے لیے اپنا دائمی خسارہ کر نے لگتا ہے۔ اپنے عمل سے ایمان کی گواہی نہیں دیتا ۔ یہی قول و عمل کا تضاد فسق ہے اس لیے فرمایا’’ یہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔
ایمان و عمل کے بعد انجام کی بابت آگے یہ رہنمائی ہے کہ ’’ دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہو سکتے جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں‘‘۔ یعنی دوزخ میں جانے والے لوگ ناکام و نامراد ہیں ۔ اس مرحلے میں انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والی رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہاں پر قرآن حکیم کا اس طرح ذکر آجاتا ہےکہ ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں ‘‘۔
قرآن عظیم کی آیات پہاڑ جیسی سخت شئے کو پاش پاش کرسکتی ہیں مگر سنگدل انسان اس کا اثر نہیں لیتا۔ سورۂ البقرہ میں فرمایا گیا ’’پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو کر پتھر کے مانند بن گئے بلکہ اس سے بھی سخت۔ اور پتھروں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ پڑتی ہیں اور بعض ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی جاری ہو جاتا ہے اور ان میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ کی خشیت سے گر پڑتے ہیں اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے‘‘۔سورۂ حدید میں ہم جیسے کمزور اہل ایمان سےسوال کیا گیا ہے کہ’’کیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ابھی وقت نہیں آیا کہ اللہ کی یاددہانی اور جو حق نازل ہوا ہے اس کے آگے ان کے دل جھک پڑیں اور وہ ان لوگوں کی طرح ہو کے نہ رہ جائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تو ان پر ایک مدت گزر گئی اور ان کے دل سخت ہو کے رہ گئے اور ان میں بہتیرے نافرمان ہیں‘‘۔ اس آیت کی روشنی میں ہمیں اپنے قلب کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ ’’ تمام بنی آدم کے دل رحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں میں ہیں ۔وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پھیرتا ہے‘‘۔ اس بیان کے بعد نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی : اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے، ہمارے دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے ‘‘۔ (۰۰۰جاری آئندہ جمعہ ان شاء اللہ)