خربوزے کو دیکھ کر تربوزہ رنگ بدلتا ہے

خربوزے کو دیکھ کر تربوزہ رنگ بدلتا ہے

ڈاکٹر سلیم خان

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے اقلیتی فورم کا نام مسلم راشٹریہ منچ ہے ۔اس سے متعلق جبہ و دستار والوں  کو دیکھتے  ہی مسلمان محتاط ہوجاتے   کیونکہ  نبی کریم  ﷺ نے فرمایا کہ انسان اپنے ساتھی کے طور طریقے پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔  اس کی حکمت ایک اور حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ’’ اچھے دوست اور برے دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک اور لوہار کی بھٹی، مشک والے کے پاس جائے (یعنی عطار کے) تو فائدے سے خالی نہیں آتا یا تو مشک (یا عطر) خریدے یا خوشبو ہی سونگھتا رہے اور لوہار کی بھٹی یا تو تیرا بدن یا کپڑا جلاتی ہے یا تجھ کو بو سونگھاتی ہے‘‘۔ سنگھ پریوار ایک ایسا احمق لوہار ہے کہ یہ ہے کہ اس کی  صحبت رہنے والے مسلمان کا دامن بھی جل کر تار تار ہوجاتا  ہے نیز بدبو سونگھتے سونگھتے قوت شامہ شل ہوجاتی ہے   نیز خیر و شر  کی تمیز مٹ جاتی ہے۔ اس کی مثال آئے دن سامنے آتی رہتی ہے مگر  شہریت کے قانون میں ترمیم اور این آر سی کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج  جب  بی جے پی والوں نے مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی تو دو دلچسپ واقعات سامنے آئے۔

 بی جے پی ان قوانین کے حوالے سے اپنی غلطی کا احساس ہو نے لگا  ہے۔ وہ اس کی وجہ غلط فہمی سمجھتے ہیں اور اس کے ازالہ کے لیے   پردھان سیوک نے عوام کو گمراہ کرنے کی نئی مہم چھیڑ دی ہے۔ مسلمانوں کو نئے سرے سے ورغلانے کے لیے فی الحال  زعفرانی مسلمانوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔  کرناٹک میں مسلمانوں کو رجھانے کی خاطر صوبائی اقلیتی کمیشن کے صدر کی  صدارت میں  ایک پروگرام رکھا گیا  ۔ ان احمقوں کو نہیں معلوم کہ مسلمان کسی کی  اندھی بھکتی نہیں کرتے۔ملت  اس گئی گزری حالت میں اتنا سیاسی شعور رکھتی ہے کہ کسی  مسلمانوں کو  سنگھ کے ساتھ دیکھ ہے تو  اس کا شمار انہیں لوگوں میں کرتی ہے۔ صدارتی  خطاب  کے وقت عبدالعظیم کو یہ احساس  تھا کہ وہاں کوئی مسلمان تو موجود ہے نہیں  اس لیے انہوں نے اپنے نارنگی آقاوں کو خوش کرنے کے لیے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کا جملہ دوہراتے ہوئے کہہ دیا  کہ  ہندوستان میں بسنے والے 99فیصد مسلمان ہندو ہیں ۔ جس طرح کوئی شخص بیک وقت احمق اور سمجھدار نہیں ہوسکتا اسی طرح ہندو اور مسلمان بھی نہیں ہوسکتا لیکن یہ موٹی منطق بھی سنگھ کے بیوقوف لوگ نہیں جانتے ۔  برسر اقتدار طبقہ میں مسلمانوں کی قیادت کرنے کا دم بھرنے  والے ایک نام نہاد  مسلمان کی زبان سے یہ جملہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ اس کا  نہایت افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اپنی  نامعقول  صدارتی تقریر  کی تشہیر کاکام  خودعبدالعظیم نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعہ  کیا۔ یعنی بقول اقبال؎

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا                                      کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر