محسنِ قوم راجیودھون اور مسلم لیڈرشپ

محسنِ قوم راجیودھون اور مسلم لیڈرشپ

تحریر : سمیع اللّٰہ خان
4 دسمبر، بروزبدھ ۲

۰۱۹یہ خبر کل رات ہی مجھے مل چکی تھی کہ جمعیۃ علمائے ہند نے مشہور وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کو بابری مسجد مقدمے سے الگ کردیاہے
اس پر مباحثہ بھی جاری تھا
معروف عالمِ دین مفتی یاسر ندیم الواجدی اور سینئر جرنلسٹ شکیل رشید صاحب نے راجیو دھون کے سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کی فاش غلطیوں پر تنقید بھی کی، میں اس پر کوئی الگ سے تجزیہ نہیں کرنا چاہتاتھا
لیکن اب صبح دیکھتا ہوں کہ راجیو دھون کو انہی کی کمیونٹی والے بری طرح عار دلا رہےہیں، راجیو دھون کی زبان کہہ رہی ہے کہ جمعیۃ کے افراد جھوٹ بول رہےہیں
یہ ہمارے لیے ایسا واقعہ ہےکہ اسے یونہی فراموش نہیں کیا جاسکتا

مجھے ریویو پیٹیشن کی ترتیب پر بھی تعجب ہوا کہ جمعیۃ علماء ہند نے تنہا ریویو فائل کردی ہے
اگر ریویو پیٹیشن فائل کرنے کا فیصلہ ہو ہی گیا تھا تو آخر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی شمولیت کے بغیر اسے کیوں فائل کردیاگیا؟
کم از کم ریویو پیٹیشن تو جمعیۃ اور بورڈ کی طرف سے متحدہ ہونی چاہیے تھی
یہ سوال بہت سارے لوگوں کو کھٹک رہاہے

اس کے بعد اچانک جمعیۃ کے وکیل کے حوالے سے راجیو دھون یہ کہتےہیں کہ انہیں بابری مسجد مقدمے سے الگ کردیاگیا ہے
مولانا ارشد مدنی صاحب بعد میں وضاحت کرتےہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ ایسی غلط فہمی کیوں پیدا ہوئی؟
یہ مزید حیرت انگیز جواب ہے
آخر کیسے مان لیا جائے کہ جمعیۃ کا آن ریکارڈ وکیل اتنا بڑا فیصلہ اپنے سربراہ کی مرضی کے بغیر سنا رہا ہے
اگر واقعی ایسا ہے تو جمعیۃ کو اپنے پینل سے اپنی شفافیت ثابت کرنے کے لیے اعجاز مقبول کو برخاست کرنا چاہیے
اگر یہ کارروائی ہوتی ہے تو بات بالکل صاف ہوجائے گی

لیکن اب بات بہت دور تلک جا چکی ہے، ہمارے ذمہ دار لوگوں کے غیر مرتب کام کرنے کے طریقے نے بہت نقصان پہنچایا ہے
ذرا سوچیے کہ وہ راجیو دھون جس نے بابری مسجد کی لڑائی لڑنے کے لیے اپنی قوم سے لڑائی مول لی، اپنی جان کو جوکھم میں ڈال دیا،
وہ راجیو دھون جس نے ابھی چند دن پہلے یہ بیان دیا کہ فساد پھیلانے کا کام ہندو کرتےہیں
وہی راجیو دھون اب کہہ رہاہے مسلمانوں نے میری بے عزتی کی، مسلمانوں کے لیڈر کیمپ کے لوگ جھوٹ بول رہےہیں
اس صورتحال سے جو بدترین شبیہ مسلمانوں کی عام ہوئی ہے اس کی تلافی بھی ممکن نہیں ہے، ایک ایسے دور میں جب کہ بھارت میں مسلمانوں کو اسلام کی اشاعت اور دعوت کا فریضہ انجام دینا ہے، اپنے وجود کی لڑائی لڑنی ہے، ایسے وقت میں ایک ہندو جو ہمارے لیے انصاف کی خاطر کھڑا ہوتاہے، ہم اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرتےہیں کہ وہ ہم سے تنفر کی حد تک بدظن ہوجاتاہے، ہم اپنے معاملات سے مسلمانوں کے دامن پر ایک ایسا داغ لگا دیتےہیں کہ جس کی کراہیت متفقہ ہے

دوسری طرف صورتحال ایسی ہیکہ معاملہ سلجھانے کی جگہ پر بعض عقل و شعور سے پیدل بھکتی سے آلودہ مسلمان جمعیۃ کے دفاع میں راجیو دھون کو ہی ٹارگٹ کرنے لگے ہیں
دفاع کے جوش جوش میں ہمارے ہی بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ جمعیۃ راجیو دھون کو پیسہ دیتی ہے
پیسہ دیتی ہے یا نہیں وہ الگ تفتیش کا موضوع ہے لیکن اب تک کی معلومات یہی ہیں کہ راجیو دھون بابری مسجد کا مقدمہ سچائی اور انصاف کے لیے بلا معاوضہ لڑتے رہےہیں
اس تناظر میں اب یہ سوال اٹھتا ہےکہ جب راجیو دھون پیسہ نہیں لے رہےتھے تو یہ پیسے جمعیۃ کی طرف سے کون دے رہاتھا؟ اور راجیو دھون کے نام پر کون وصول کررہاتھا؟

راجیو دھون کے اس قضیے کے بعد مسلمانوں کی ایسی بدنامی ہورہی ہے کہ ہم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے، ہمارے لوگ غلطیاں کرنے کے بعد اسے سدھارنے کے بجائے اس کی تاویل اور تشریح کرنے لگتے ہیں اور اس میں مزید غلطیاں کرتےہیں، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ مسلمانان ہند کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے جو فاش غلطیاں کرتے ہیں وہ صرف ان کی ذات تک نہیں رہتی ہیں بلکہ اس کا اطلاق اسلام پر کیا جاتاہے، معاملات کی ایسی خرابی سے صرف ان کا اپنا ہی نہیں بلکہ پوری امت کا کردار متاثر ہوتاہے، اور راجیو دھون کے قضیے سے یہی ہورہاہے، ایک طرف ان کے مذہب والے انہیں شرم دلا رہےہیں کہ دیکھو تم کن لوگوں کے لیے لڑرہے تھے، تو دوسری طرف یہ موضوع بحث ہےکہ اگر مسلمانوں کی مرکزی قیادت کا یہ حال ہے تو مسلمان معاملات، اور اخلاق و کردار میں کیسے ہوں گے
ایسے کتنے ہی معاملات پیش آتےہیں جن میں تنظیموں کی وضاحت خود ان کی خرابیاں بیان کرتی ہے، ہر سماجی اور تجربہ کار شخص سمجھ لیتاہے کہ جھوٹ بولا جارہاہے ایسے جھوٹ سے آپکے چار عقیدت مند مرید تو مطمئن ہوسکتےہیں لیکن ذرا کبھی معاشرے میں چل پھر کر اور بھیس بدل کر ان کے درمیان بیٹھ کر دیکھیں کہ وہ آپکے اس جھوٹ سے کیا تاثر لیتےہیں؟
یہ جو مسلسل رسوائیوں اور ناکامیوں کا سامنا ہمیں کرنا پڑتاہے اس کے وہی چند اسباب ہیں جو ہماری جڑوں میں گھس چکےہیں،
لیڈرشپ کی حامل تنظیموں میں غیر جمہوری اور چاپلوسانہ مزاج، غیر شفاف نظام، شخصی بالادستی، سیاست، سماجیات اور قانونیت سے بہت دور ایک خاص حلقے کی بھیڑ، کڑے احتسابی محکمے کا فقدان اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود کو تنقيد سے بالاتر سمجھنا، یہ وہ امراض ہیں جس نے قومی قیادت کو، تدبیر، اور طویل المیعاد پالیسی ساز کوالٹی سے محروم کردیاہے
جب جب اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی گئی، تو ایسی تنقیدی کوششوں کو اس طرح پیش کیاگیا گویاکہ وہ تنقیدیں اسلام کے خلاف ہیں، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہیں، جو لوگ ان خرابیوں پر توجہ دلانے کی کوشش کرتےہیں وہ ان کی اپنی قوم کے افراد بھی ہوں تو ان کے خلاف طوفان بدتمیزی اور بدنامی کا سیلاب آجاتا ہے،
یہ کیسی المناک صورتحال ہے!
کچھ نادان لوگ یہ نعرہ لگاتےہیں کہ، بھئی جیسا بھی ہے چلنے دو، تو ٹھیک ہے آپ ایک مریض اور اندرونی طورپر خستہ حال سواری پر اس کی اصلاح کے بغیر چلتے رہیے، اور انجام کار سامنے ہے، مہلک امراض چھپتے نہيں، آپ ان پر جتنے چاہے پردے ڈال لیجیے، جس قدر چاہیے ان سے چشم پوشی کیجیے، لیکن وہ فطری طورپر ابھر ابھر کر سامنے آتے رہیں گے، ہم جب یہ معروضات پیش کرتےہیں تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے، بہت دل کڑھتا ہے، کیونکہ یہ ہمارا اپنا جسم ہے جو اپنوں ہی کے ہاتھوں چور چور ہے لیکن وہ اس کی اصلاح نہیں چاہتے، آج ہم لوگ توجہ دلا رہےہیں جو اسی جسم کا حصہ ہیں، کل دوسرے بدخواہ آئیں گے انہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں گے_

ایک ایسے نازک وقت میں جبکہ امت اسلامیہ ہندیہ کو NRC اور CAB کے ذریعے قانونی طورپر برباد کرنے کی تیاری دشمن کرچکاہے، ایسے وقت میں یہ جھگڑا نکال بیٹھ کر اس میں وقت اور توانائی کے ضیاع پر خونِ دل جلاؤں یا ماتم کروں؟

راجیو دھون ایک شریف خاندان کے باضمیر اور اصول پسند انسان ہیں، تیر کمان سے نکل چکاہے، جب ایسے اصولی انسان کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی، وہ آپکو زبان سے بہت ممکن ہےکہ معاف کردیں، لیکن تاریخ میں معافی نہیں ملے گی… اپنے ايک محسن کے ساتھ ایسا غیر شریفانہ برتاؤ تابوت کے کیلوں میں سے ایک ہے_

سمیع اللّٰہ خان
4 دسمبر، بروزبدھ ۲۰۱۹
ksamikhann@gmail.com