اگر ہم چیف جسٹس ہوتے۔۔

اگر ہم چیف جسٹس ہوتے۔۔ 
ممتاز میر
ویسے تو پنچوں کی بنچ میں ایک نام عبدالنظیربھی شامل تھامگر پورے شعور کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم خود بھی شامل ہوتے تو کیا کر لیتے۔وہی کرتے جو رخصت پذیر چیف جسٹس جناب رنجن گوگوئی نے کیا ۔انسان قربانی وہاں دیتا ہے جہاں یہ شعور ہو کہ کون کس کے لئے کیا قربانی دے رہا ہے ۔یہاں تو یہ حال ہے کہ ندوی ڈبل شری روی شنکر کی گود میں چڑھ کر ایسے بیٹھے ہیں کہ کھیل ختم ہوجانے کے بعد بھی اترنے کو تیار نہیں یہی حال مدنی چچا بھتیجوں کا ہے ۔انھوں نے بھی مہینوں پہلے سے حکمراں طبقے سے یارانا گانٹھ رکھا ہے۔بلکہ چھوٹے مدنی تو آر ایس ایس اور بی جے پی کی باقاعدہ چاکری کر رہے ہیں ۔اب ان کا کیا موقف ہے یہ واضح طور پر سامنے نہیں آسکا ہے ۔جب بڑے بڑے مہارتھیوں کی حالت یہ ہے تو کس مائی کے لعل میں ہمت ہے کہ وہ ہندتو وادیوں کے اشارہء ابرو کے خلاف چوں بھی کردیتا۔کم سے کم ہم تو اپنے آپ کو کسی کھیت کی مولی سمجھنے سے قاصر ہیں۔  چلئے مدنی چچا بھتیجوں کو چھوڑئیے۔گو کہ وہ دارالعلوم دیوبنداور اپنے متبعین کے بیچ رہتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔دراصل بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے صرف’علما‘ نہیں سیاستداں بھی ہیں۔ شاید ان کی کوئی گوٹ پھنس گئی ہے ۔اسی لئے ممکن ہے حکمراں گروہ انھیں بلیک میل کر رہا ہو۔مگر وہ جو اپنے آپ کو خادم الحرمین کہتے ہیں ،بادشاہ کہلواتے ہیں ۔ان کا کیا؟ آج دنیا کے کونے کونے میں مسلمانوں کی یہی حالت ہے ۔یہ ہمارے لئے کیا بولیں گے ؟ خود ان کا حال یہ ہے کہ یہ بھی لیڈروں اور علما کی طرح امریکہ و اسرائیل کی چاکری کر رہے ہیں۔امریکی و اسرائلی کمپنیوں کے سافٹ ڈرنک تو وہاں اس وقت بھی بکتے تھے جب امریکہ نے ۲۰۰۳  میں عراق پر حملہ کیا تھا ۔احتجاج دنیا کے کونے کونے میں ہواتھا اور ہم نے بھی کیا تھا ۔بائیکاٹ کے نعرں سے دنیا میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی،مگر شاہ عبداللہ جو امریکی مخالفت میں بہت مشہور تھے پانی کے بدلے اپنی عوام اور حجاج کرام کو پیپسی اور کوکاکولا پلا رہے تھے۔شہنشاہوں میں ذرا بھی اسلامی نہیں عربی حمیت ہی ہوتی تو وہ کسی بھی مسلم ملک سے متبادل سافٹ ڈرنک منگواسکتے تھے۔انھوں نے امریکی فوج نہیں امریکی بے شرمی بھی ساتھ میں منگوائی تھی۔اب آج ،آج تو ان کی حالت یہ ہیکہ،شاہ کے بچے کو مغربی تہذیب کے عشق نے باولا کر دیا ہے۔مغربی تہذیب کی منفی باتوں نے مثبت باتوں نے نہیں۔اب یہ بھی مغربی تہذیب کی نقالی میں اپنے یہاں کلب قائم کررہے ہیں ۔عورتوں کو آزاد کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی کیا اب ان سے مردانہ حمیت بھی رخصت ہوا چاہتی ہے۔حیرت ہے کہ یہ اس وقت کپڑے اتار کر ننگے ہورہے ہیں جب مغربی تہذیب کے کپڑے پہننے کا وقت قریب آرہا ہے۔مگر یہ اپنے یہاں مغربی تہذیب کی طرح آزادیء اظہار رائے کو کسی حال پنپنے نہ دیں گے ۔یہ اپنے ناقد مصری وکیل اور سوشل ایکٹیوسٹ اور پاکستانی ٹی وی اینکر زید حامد کی طرح کے لوگوں کو جو سادہ لوحی میں عمرے کو چلے گئے تھے گھیر کر جیل میں سڑا دیں گے ۔خوب سوچ سمجھ کر لکھنے والے کوجمال خشوگی کی طرح گھر بلا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔یہ خاص لوگوں کی باتیں ہم نے مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر بیان کی ہیں۔اب کچھ عام لوگوں کا حال بھی بیان کرتے ہیں۔  عام لوگوں نے وہ چند رسوم عبادات جو باپ دادا سے چلی آرہی ہیں انھیں ہی مکمل دین بنا کر رکھ دیا ہے ۔اور ایسی بد اعمالیوںکے جو نتائج نکلنا چاہئے وہ ہر کوئی بچشم سر دیکھ رہا ہے۔ نماز ، روزہ، زکوٰۃ(یہ بھی ہر کوئی نہیں دیتا)اورحج ،ہاں،آجکل اس میں ایک پانچویں چیز کا اضافہ ہو گیا ہے،وہ ہے عمرہ۔گذشتہ چند سالوں میں میاں بھائیوں نے عمرے کو گنگا اشنان کی طرح بنا دیا ہے اور بالکل پکنک کی طرح لوگ عمرے پرجاتے ہیں ۔سیلفی اور ویڈیوز کی بھر مار ہوتی ہے ۔سچ یہ ہے کہ اب عمرے میں ثواب کا پہلو بالکل نہیں رہا ۔قریب ڈھائی تین ماہ پہلے ایک ڈاکٹر صاحب ہمیں کہنے لگے کہ صاحب ہم عمرہ کرنے جارہے ہیں۔ہم نے دانستہ ان سے پوچھا ،کیوں ؟انھوں نے کہا ثواب کے لئے ،اللہ کو راضی کرنے کے لئے۔ ہم نے کہا اگر ایسا ہے توہم آپ کو گھر بیٹھے عمرے سے زیادہ ثواب دلا دیتے ہیں۔اللہ بھی یقیناً اس سے خوش ہوگا۔آپ ۲۵ ہزار روپیہ جمعیتہ العلما کو اور ۲۵ ہزار جماعت اسلامی کو دے دیجئے(ان کے ایک بزرگ کا تعلق مقامی جماعت سے ہے)ہمیں یقین ہے کہ آپ کو گھر بیٹھے عمرے سے زیادہ ثواب مل جائے گا ۔اور آپ سفر کی تکالیف سے بھی بچ جائیں گے۔مگرڈاکٹر صاحب نے ہماری بات نہیں مانی اور واپس آکر بڑے فخر سے ہمیں ملے ۔چند مہینوں پہلے سوشل میڈیا پر بار بار ایک سال میں ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعے نفل حج و عمرے پر خرچ کی جانے والی رقم کے تخمینے آرہے تھے ۔کوئی ڈیڑھ لاکھ کروڑ بتا رہا تھا کوئی ۵۰؍۶۰ ہزار کروڑ کوئی ایک لاکھ کروڑ ۔ہمارا سوال یہ ہے کہ ہم یہ ایک سال کی رقم قوم سے لے کر جمع کریں تو اس میں کتنے ٹی وی چینل ،کتنے قومی سطح کے اخبارات، کتنی یونیورسٹیاں،کتنے UPSCکوچنگ کھول سکتے ہیں؟اگر قوم نہیں دے سکتی تو پھر ایسی قوم کا غم کیوں ہو؟جو لوگ خدا کو دھوکہ دینے کی شعوری کوشش کرتے ہوں،ہمیں ان سے ہمدردی کیوں ہونا چاہئے؟چلئے ،اب اس سے آگے بڑھتے ہیں۔وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو روزہ نماز ،قراء ت قرآن اور اوراد وظائف میں غرق کر لیا ہے کچھ ان کا حال بھی سنئے۔ہم جس شہر میں رہتے ہیں وہاںمسجدوں یں نمازی ستر کھول کر پیشاب کرتے ہیںاسی لئے یہاں مسجدوں میں پیشاب خانے کو بیت الخلا کی طرح استعمال کرنے کی وبا عام ہے ۔مصیبت بیچارے موذن کی ہوتی ہے۔جبکہ حدیث کہتی ہے مرد سوائے اپنی بیوی کے کسی کے سامنے ستر نہیں کھول سکتا۔حیرت یہ ہے کہ اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز ان کی ہر قسم کی بداعمالیوں کے لئے نجات کا سامان ہے۔اور اسی لئے مسجدوں میں موبائل کا استعمال دھڑلے سے کیا جاتا ہے ۔ان کی ذہنیت یہ ہے کہ نمازایک ضمنی چیز ہے ،اصل تو کاروبار زندگی ہے۔لوگ جان بوجھ کر موبائل آن رکھ کر نمازپڑھتے ہیں۔ان کے لئے مسجد میں داخل ہونے کے بعد بھی مسجد کے باہر کے کاروبار اہم ہیں۔حالانکہ ہر مسجد کے داخلے پر اعتکاف کی نیت لکھی ہوئی ہے۔وہ چند منٹوں کے لئے بھی اس سے دور ہونا گوارا نہیں کرتے۔سوچئے! ایسے لوگوں کی نمازوں میں خشوع و خضوع کتنا ہوتا ہوگا ؟ایسی نمازیں حق بندگی ادا کرنے کے لئے ہوتی ہونگی یا خدا پر احسان دھرنے کے لئے؟ایک بیماری اور ہے (ممکن ہے وہ اور شہروں میں بھی ہو)وہ یہ کے جس کے بھی والدین یا بزرگ مرتے ہیں وہ ان کے ایصال ثواب کے لئے مسجد میں ایک قرآن لا کر رکھ دیتا ہے۔ اس طرح ہر سال ہر مسجد سے کئی کئی بورے قرآن ندی یا کنویں میں ڈوبادئے جاتے ہیں۔ان مسائل کی اصلاح کے لئے اگر کوئی بولتا ہے، ٹوکتا ہے توکوئی اس کی حمایت نہیں کرتا بلکہ ٹوکنے والے کو کہا جاتا ہے کہ آپ کو کیا پڑی ہے ۔خاموش رہئے۔اس تناظر میں امر بالمعروف والی آیات و احادیث کو یاد کیجئے کہ ہمارے ساتھ جو ہو رہا وہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا ۔بابری مسجد کو ہم نے اپنے اسلام کی علامت زبر دستی بنالیا جبکہ ہم خود اسلام کی ہر علامت کو اپنے پیروں تلے خوب اچھی طرح کچل کر ختم کر رہے ہیں ۔اب جس قوم کا معاشرے کو Regulate کرنے والی آیات واحادیث کے ساتھ یہ حال ہو وہ سورہ انفال کی ۶۰ ویں آیت کو جانتی بھی ہوگی کیا؟اور جانتی بھی ہوگی تو اس پر عمل درآمد کے لئے فرشتوںیا مہدی کی آمد کی منتظر رہے گی۔        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137