جمعہ نامہ: جنگ حکمت عملی ہے (حدیث)
ڈاکٹر سلیم خان
قرآنِ حکیم میں غزوہ احزاب کے حالات اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ ’’یاد کرو جب وہ تم پر تمہارے اوپر سے بھی چڑھ آئے تھے اور تمہارے نیچے سے بھی اور جب آنکھیں پتھرا گئی تھیں ، اور کلیجے منہ کو آگئے تھے ، ۰۰۰۰ اس موقع پر ایمان والوں کی بڑی آزمائش ہوئی ۰۰۰۰۰‘‘۔ ایسے میں نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے جس حکمت و دانائی کے ساتھ جرأت و ہمت کا مظاہرہ کیا وہ تاقیامت اہل ایمان کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ دشمنانِ اسلام اگر باہم متحد ہوجائیں تو حکمت عملی کا تقاضہ ہے کہ ان کو ایک دوسرے سے بے تعلق کر دیا جائے ۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر بنو غطفان اور بنو قریظہ کے ساتھ دو مختلف قسم کی حکمت اپنائی گئی۔ اس جنگ کے دوران نبی اکرم ﷺ نے بنو غطفان کے سرداروں کو میدان جنگ سے دور کرنے کی غرض سے مدینے کی ایک تہائی پیداوار دے کر مصالحت پر آمادہ کرنے کا خیال فرمایا تاکہ ان کے لوٹ جانے پر تنہا قریش سے بدر و احد کی مانند نمٹ لیا جائے ۔ اس تجویز پر عملدر آمد سے قبل آپ ؐ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ اور حضرت سعد بن عبادؓ سے مشورہ کیا ۔ اس طرح قائد کوخاص مواقع پر اپنے تئیں فیصلہ کرنے کے بجائے مشورہ کرنے کا سبق سکھایا گیا ۔ یہاں پر مشورے کے لیے جو صحتمند ماحول درکار ہے اس کا اندازہ ان صحابہؓ کے استفسار سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان حضرات نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اگراللہ نے آپ ؐ کو اس کا حکم دیا ہے تب تو بلا چون و چرا تسلیم ہے اور اگر محض آپ ؐ ہماری خاطرایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ۔
اس تکلف سے خالی وضاحت کی طلب اور ابہام سے پاک صاف مشورہ پرنبی مکرم ﷺ چنداں ناراض نہیں ہوئے۔ انہوں نے فرمایا جب میں نے دیکھا کہ سارا عرب ایک کمان کھینچ کر تم پرپل پڑا ہے تو محض تمہاری خاطر میں نے یہ کرنا چاہا ۔ عزیمت کے پیکر صحابہ کرام ؓ کہتے ہیں جب ہم اور وہ دونوں شرک و بت پرستی پر تھے تب تو یہ لوگ میزبانی یا خرید و فروخت کے سوا کسی اور صورت سے ایک دانے کی بھی طمع نہیں کر سکتے تھے، اب تو اللہ نے ہمیں ہدایتِ اسلام سے سرفراز فرمادیا ہے اور آپ ؐ کے توسط سے ہمیں عزت و شرف سے نوازہ گیا ہے ،تو اس کے بعد ہم انہیں اپنا مال دیں گے؟ واللہ ہم تو انہیں صرف اپنی تلوار دیں گے ۔ اصرار و تکرار سے مبراّ یہ مشورے کا احسن اسوہ ہے کہ جس میں نبی کریم ﷺ ازخود اپنی مصالحت کی تجویز مسترد فرما دیتے ہیں۔ مشورے کے بعد فیصلے کی تبدیلی میں کوئی تکلف یا انانیت آڑے نہیں آتی ۔ کیا بابری مسجد سے متعلق مسلم پرسنل لا بورڈ کےآئندہ اجلاس میں قرآن حکیم کی ہدایت ’وامرھم شوریٰ بینھم ‘پر اس طرح عمل در آمد ہوگا؟ اس طرح کے فیصلوں کے لیے یہ لازم ہے۔
دورانِ جنگ بنو قریظہ کی غداری باعثِ تشویشناک صورتحال پیدا ہوگئی ۔ اس موقع پر بنو غطفان کے حضرت نُعیم بن مسعود نے نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ،میرے مسلمان ہو نے کا علم میری قوم کو نہیں ہے لہٰذا مجھے کوئی حکم دیجیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، تم ان کی حوصلہ شکنی کرو ۔ کیونکہ جنگ تو حکمت عملی کا نام ہے ۔ اس پر حضرت نُعیم ؓ نے بنو قریظہ سے کہا قریش و غطفان اگر رخصت ہو جائیں تو محمد ؐ آپ سے انتقام لیں گے ۔ اس لیےقریش جب تک کچھ آدمی یرغمال کے طور پر نہ دیں ان کی جنگ میں شریک نہ ہونا ۔ قریش اور بنو غطفان سے کہا : بنوقریظہ اپنی عہد شکنی پرنادم ہیں وہ تمہارے یرغمال محمد ؐ کے حوالے کرکے معاملہ استوار کر لیں گے ۔ لہٰذایرغمال ہرگز نہ دینا ۔ قریش نے کوہلہ بولنے کےلیے کہا تو کر بنو قریظہ نے یرغمال کا مطالبہ کیا اور دونوں کو نعیمؓ کی بات کا یقین ہوگیا۔ اس طرح دشمنوں میں پھوٹ پڑ گئی اوران کے حوصلے پست ہو گئے۔ حضرت نعیم ؓ کو کسی اندیشے کے بغیر کام کرنے کی مکمل آزادی دے کر نبی کریم ؐ نےقابل تقلید باہمی اعتماد مظاہرہ فرمایا اور غزوہ کے دوران دعا کی ’’ اے اللہ ہمیں خطرات سے مامون کردے ‘‘۔ یہ سوال اہم ہے کہ اس دعا کی مقبولیت میں کہیں قائدین ملت کا اپنے رفقائے کار پر عدم اعتماد تو حائل نہیں ہے؟