ریکارڈ درست رکھئے

ممتاز میر
   قریب ۳۵ سال پہلے ہم مہاراشٹر کے مشہور شہر دھولیہ میں ملازمت کی غرض سے مقیم تھے۔دھولیہ کے سب سے بڑے مدرسے کا نام سراج العلوم تھا۔اس مدرسے کے ایک سالانہ جلسے میں ایک مدرس نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وطن عزیز کا ایک غیر سرکاری وفداسپین میں اس اسٹڈی کی غرض سے گیا تھا کہ اسپین سے مسلمانوں کو کس طرح نکالا گیا تھا ۔ہمارا خیال ہے کہ اب مسلمانوں کا بچہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ وفد کن لوگوں پر مشتمل ہوگا۔اور اسے کس کی سرپرستی حاصل ہوگی ۔یہاں ہمارا سوال یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے مدرسے کے معلم کی با خبری کا یہ حال تھا ۔پھر ہمارے دگج رہنما اور علماء کیا اس صورتحال سے بے خبر رہے ہونگے؟یقیناً با خبر تھے ۔توپھر انھوں نے کیا کیا ؟کانگریس کا چمچہ بن کر عمریں بتادیں۔اور کانگریس نے کیا کیا ؟ مسلم پرسنل لاکو ایشو بنا کربی جے پی کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ بابری مسجد کو ایشو بنا کربی جے پی کے حوالے کر دیا ۔افسوس!آج بھی ہمارے رہنماؤں کو خدا پر وہ بھروسہ نہیں جو کانگریس پہ ہے۔   اب کچھ دنوں سے رہنماؤں کی نئے کھیپ کے چرچے سننے میں آرہے ہیں۔پہلے کی طرح اب بھی یہ کھیپ دین داروں اوردنیاداروں  کا ـ’حسین امتزاج‘ہے۔مسلم رہنماؤں کی اس نئی کھیپ میں پرانے پاپی حضرت مولانا سید سلمان حسنی ندوی کے ساتھ رٹائرڈ لفٹننٹ جنرل و سابق وائس چانسلرمسلم یونیورسٹی ضمیرالدین شاہ۔پدم شری منصور حسن،برگیڈئیر احمد علی ، سابق آئی اے ایس انیس انصاری ۔ سابق جج بی ڈی نقوی جیسے کئی غیر معمولی عہدوں پر براجمان رہ چکے حضرات شامل ہیں ۔ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ بدنام بھی ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔یہ مثل مولانا سید سلمان ندوی پر پوری طرح صادق آتی ہے ۔شہرت کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خواہش نے انھیں کچھ عرصے پہلے سری سری روی شنکر کے عشق میں بری طرح مبتلا کر کے بدنام کیا ۔یہاں تک کے ان کے شاگردوں نے انھیں مضامین لکھ لکھ کر راہ راست  پر لانے کی کوشش کی ۔مگر مولانا زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد بنے رہے۔سید ہونے کا نشہ بھی بڑا جان لیوا ہوتا ہے ۔اور لفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ صاحب تو شاید یہ چاہ رہے ہوں کہ حکومت پھر انھیں کسی یونیورسٹی کسی کارپوریشن میں یا ایسی ہی کسی چیز میںکھپا دے تاکہ بیکاری کےدن کٹ سکیں۔ہم ان کے لئے ایک باعزت پیشہ تجویز کر دیتے ہیں۔وہ بھائی کے پاس ممبئی چلے جائیں۔فلم بنائیں یا اداکاری شروع کریں۔یہاں تو آپ کی اداکاری دیکھنے کے لئے ہم جیسے لوگ بیٹھے ہیں ۔ظاہر ہے ہم فلمی critic تو ہیں نہیں جو کچھ لے دے کے آپ کی کامیابی کا اعلان کردیں۔لسٹ کے باقی نام اور ان کی سابقہ ذمے داریاں دیکھ کر ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔حالات کے دباؤ سے جو ڈرجائیں یا ہتھیار ڈال دیں وہ فوجی یا بیوروکریٹ کیسے ہو سکتے ہیں؟ان حضرات نے اپنی مدت کار میں کیا کیا ہوگا؟غریبوں کے مسائل حل کئے ہونگے یا زرداروں کے سامنے سپر ڈال دی ہوگی؟اللہ رحم کرے یہ کیسے فوجی اور کیسے نوکر شاہ رہے ہونگے؟جو بھی ہو اگر یہ ایماندار ہیں تو انھیں اپنی مدت کار کا مشاہرہ حکومت کو واپس کرنا چاہئے۔اس بھیڑ میں ایک نام پڑھ کر ہمیں افسوس بھی ہوا ۔وہ نام ہے مولانا توقیر رضا کا۔ہم ان کے تب سے معتقد ہیں جب وہ اتحاد ملت کی خاطر چل کر دیوبندیوں کے در پر حاضر ہوئے تھے۔مگر اس دور پر آشوب میں کسے خبر کب کیا ہوجائے؟زمین بڑے بڑے آسمانوں کو کھا رہی ہے،خیر!   ہم اکثر ترکی کے اخبارات پڑھتے ہیں۔کبھی کبھی خبر ہوتی ہے کہ ترکی کے فلاں حصے میں دو ہزار سال پرانی شئے دریافت ہوئی ہے ۔کبھی کسی دوسرے حصے میں ۳ ہزار سال پرانی کوئی شئے یا کوئی قبر یا کوئی اسٹرکچر دریافت ہوتا ہے ۔یہ خبریں بذات خود ایک ریکارڈ ہیں اس کے علاوہ بھی یقین ہے کہ وہاں کا آرکیالوجیکل ڈپارٹمنٹ اس کا ریکارڈ رکھتا ہوگا اس پر تحقیق بھی ہوتی ہوگی۔خدا جانے ہمارے یہاں کے احمقوں کو معلوم ہے یا نہیں کے آجکل ترکی کے اخبارات ہندوستانی مسلمانوں کے معاملات میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں۔قریب ہر ہفتے ہمارے وطن کے تعلق سے کوئی نہ کوئی خبر رہتی ہی ہے۔یعنی یہاں جو کچھ ہورہا ہے وہاں اسے ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔اور اس میں نیا کیا ہے؟ہمارے پاس تو ۱۴۰۰ سال پرانا رسول ﷺ اور صحابہؓ کرام کے اقوال و افعال کا ایک ایک لمحے کا ریکارڈ موجود ہے ۔۱۴۰۰سال پرانا یعنی اس وقت کا جب سائنس کی ابھی باقاعدہ پیدائش بھی نہ ہوئی تھی۔آج جبکہ سائنس بھر پور جوان ہوچکی ہے کہاں کہاں واقعات و حالات کا ریکارڈ نہ رکھا جا رہا ہوگا؟پہلے کے ریکارڈ صرف تحریری شکل میں ملتے ہیں۔مگر اب تو تحریر کے ساتھ ساتھ آڈیو اور ویڈیو بلکہ ہر ممکن شکل میں یہ ریکارڈ مستقبل کی نسل کو دستیاب ہونگے۔اسی لئے ہم مورخ سے ڈرتے ہیں۔ اپنی آئندہ نسل سے ڈرتے ہیں مورخ ہر چیز ریکارڈ کر رہا ہوگا ۔ اسے کوئی جنرل کوئی بیوروکریٹ کوئی جج روک نہیں سکتا۔ہمیں اس بات کا پورا پورا شعور ہے کہ ہم نے اپنی  آئندہ نسل کے لئے کوئی اچھا ورثہ نہیں چھوڑا ۔ مگر اس ورثہ کو مزید بدتر بنانا ہمارے بس کی بات نہیں ۔ بلکہ بنانے والوں کی ہم مزاحمت کریں گے ۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ۱۹۴۹ سے اب تک بابری مسجد کے تعلق سے جو کچھ ہوا ، حکومت کا کیا رول رہا ، بیورو کریسی کا کیا رول رہا ، عدالتوں نے کیسی قلابازیاں کھائیں ، مسلم لیڈروں کی کیا پینترے بازیاں رہیں ۔یہ سب مورخ نے نوٹ کیا ہوگا ۔ اور یہ کیا ، تقسیم وطن کے وقت مسلمانوں کو جوآئینی ضمانتوں اور دستوری تحفظا ت کا لی پاپ دیا گیااسے تلخ و ترش بنانے میں اپنوں اور غیروں کا کیا کردار تھا ، مورخ نے یہ بھی نوٹ کیا ہوگا ۔ یہ تمام تفصیلات جس طرح ہماری نسلیں پڑھیں گی مطالعہ کریں گی مشاہدہ کریں گی اسی طرح اغیار کی نسلیں بھی ان تفصیلات سے گزرے گی ۔ ہم ہرگز ہرگز نہ چاہیں گے کہ مستقبل کی ہندو نسلیں مستقبل میں ہمارے بچوں سے یہ کہے کہ کورٹ کے فیصلے کے بعد ہمارے اسلاف خود بابری مسجد اسی جگہ بناکر دیتے مگر تمھارے اسلاف سے صبر نہ ہوسکا ۔ جتنی جھوٹی آج کی حکمراں قوم ہے ان کی نسلوں سے کم سے کم ہم اس کے سوا کوئی توقع نہیں کر سکتے ۔ وہ کہیں گے کے حالات کے دباؤ کے سامنے تمھارے اسلاف کی چڈیاں خود ہی گیلی اور پیلی ہونے لگیں تو ہم کیا کرتے ۔ یہ رسوائی اپنی نسلوں تک پہونچانا انتہائی بے شرمی کا کام ہے ۔ اسلئے ہمارا مشورہ ہے کہ صبر سے اتمام حجت کریں ۔ عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں ۔ حکومت اپنا کام کرے اور شر پسند اپنا۔ہم کسی کے آڑے نہیں آئیں گے ۔   مذکورہ بالا تمام فوجیوں اور نوکر شاہوں سے گزارش ہے کہ مسلم امت کی فکر نہ کریں۔اپنی فکر کریں ۔ اور اس کے لئے بھی ہمارا بہترین مشورہ ہے کہ اپنے گھروں میں کسی بھگوان کا مندر بناکرپوجا پاٹ میں لگ جائیں ۔      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137