مہاراشٹر میں بقا و بالادستی کی جنگ

تجزیہ نگار
سید حسین شمسی

مدیر اعلی روزنامہ راشٹریہ سہارا
اشاعت: ہفتہ، 28 ستمبر 2019

مہاراشٹر میں بقا و بالادستی کی جنگ

ماہ اکتوبر کے اواخر میں دو ریاستوں (ہریانہ ومہاراشٹر) میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں ومہم دن بہ دن زور پکڑتی جارہی ہے۔ ایک دوسرے پر سنگین الزامات کا سلسلہ خوب دراز ہورہا ہے، جوڑ توڑ کی سیاست اور دَل بَدل کا چلن بھی اس مرتبہ کچھ زیادہ ہی عام ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ پرانے رفیق، رقیب بن رہے ہیں اور جانی دشمن، جگری دوست بنتا نظر آرہا ہے۔ چونکہ یہ موقع پرستی اور مفاد پرستی سیاسی اُتھل پُتھل کا خاصّہ ہے، اس لئے ملک کی موجودہ سیاست میں اس کو معیوب سمجھنے کے بجائے عوامی خدمات کے لئے مزید مواقع تلاش کرنے سے تشبیہ دیا جاتا ہے۔
مذکورہ دونوں ریاستوں میں صرف مہاراشٹر کی بات کریں تو گزشتہ ایک ماہ کے اندر کانگریس این سی پی کے متعدد سرکردہ لیڈران بشمول ممبران اسمبلی وممبر پارلیمنٹ نے اپنے پروفائل میں بڑے چینجز و اپ ڈیٹ کئے ہیں۔ ایک عرصہ دراز تک ’’سیکولرازم‘‘ کا عَلَم اٹھانے والے ان ’نیتاؤں‘ نے یکا یک بھگوا جھنڈا تھام لیا۔ بہرصورت اقتدار کا حصہ بنے رہنے کے عادی و منصب کے رسیا زیادہ دنوں تک اپوزیشن میں نہیں رہ پاتے۔ مہاراشٹر میں دَل بدلنے والوں نے حالانکہ بی جے پی اور شیوسینا دونوں جانب رخ کیا، لیکن جست لگانے والے ان نیتاؤں کی پہلی پسند بی جے پی ہی رہی۔ وجہ صاف ہے کہ سیاسی حالات عندیہ دے رہے ہیں کہ ملک کی معیشت دن بہ دن بھلے ہی گرتی جارہی ہو، بے روزگاری کا رونا کتنا ہی کیوں نہ رویا جارہا ہو، عوامی فلاح و بہبود کے لئے کئے گئے وعدے سرد بستے کی نذر ہوتے ہیں تو ہوجائیں، مودی و بی جے پی کی ساکھ پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ یہ پارٹی ابھی کافی عرصہ تک ریاست و مرکز میں برسراقتدار رہنے والی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران بی جے پی اور شیوسینا میں شامل ہونے والے کانگریسی لیڈران کا تانتا کچھ ایسا بندھا کہ مانو بی جے پی کی جانب سے دعوتِ عام کا اعلان ہوگیا ہو۔ جسے دیکھو اپنی غیر مشروط شمولیت کو باعثِ افتخار سمجھتا رہا۔ بدلتے سیاسی رخ اور یکے بعد دیگرے حکومتی کارروائی کو دیکھتے ہوئے کانگریس۔این سی پی لیڈران کا اپنی ’پوزیشن‘ بدلنے کے پیچھے دو ہی مقصد تھا۔ اقتدار کا حصہ بن کر کوئی منصب حاصل ہوجائے یا ای ڈی کی ممکنہ کارروائی سی عزت وجان کی پناہ مل جائے۔ بلاشبہ ای ڈی کی رواج پاتی دَبِش اور کارروائی نے اپوزیشن کو حد درجہ ہراساں کردیا ہے۔ کبھی بھی، کسی کے خلاف کی جانے والی یہ کارروائی ہی ہے جس کی وجہ سے آج اپوزیشن خاموش ہے۔ 2019 پارلیمانی انتخاب کے دوران مہاراشٹر میں ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے نے اپنے امیدوار تو میدان میں نہیں اتارے، البتہ کانگریس این سی پی کا آلہ کار بن کر نریندر مودی کی ’بخیا خوب ادھیڑیں‘۔ ظاہر ہے کہ دوبارہ برسراقتدار ہونے کے بعد بی جے پی اس حرکت کو کیسے نظر انداز کرسکتی تھی۔ سو وہی ہوا جس کا امکان نہیں بلکہ یقین تھا کہ پیش آئند اسمبلی انتخابات کے لئے راج ٹھاکرے نے ابھی تیز وتُند تیور اختیار کرنا شروع ہی کیا تھا کہ دادر واقع کوہ نور ملز کو 521 کروڑ روپئے میں خرید کر وہاں کوہ نور اسکوائر ٹاور بنانے کے معاملے میں ای ڈی نے راج ٹھاکرے کو طلب کر لیا اور گھنٹوں پوچھ تاچھ کی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، راج کی جانب سے ایسا کوئی سخت بیان نہیں آیا جس سے بی جے پی یا اس کی قیادت کو کوئی زک پہنچتی ہو۔
تازہ ترین معاملہ این سی پی سپریمو شرد پوار کے خلاف ای ڈی کی جانب سے کیس درج کیا جانا ہے۔ ای ڈی نے پوار پر سرکاری بنکوں میں 25000 کروڑ منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا ہے۔ اس کارروائی کو سیاسی انتقام سے تشبیہ دیا جارہا ہے۔ شردپوار جو درپیش اسمبلی انتخابات کے لئے گزشتہ چند ہفتوں سے پوری طرح سرگرم ہوگئے تھے اور پورے مہاراشٹر میں اپنے دوروں کو ترتیب دے رہے تھے، ایسے میں ای ڈی کارروائی کو بی جے پی کی حلیف پارٹیوں کے بعض لیڈران بھی سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں۔ سینا پرمکھ ادھو ٹھاکرے نے ایک جلسہ عام میں وزیراعلیٰ فردنویس کی موجودگی میں کہا کہ ’مہاراشٹر کی تہذیب ہمیں اپنے نظریات رکھنے کا موقع دیتی ہے، لیکن انتقامی جذبے کے تحت کئے گئے برتاؤ پر کوئی کسی کو معاف نہیں کرتا۔ اس لئے ہم کسی کے خلاف انتقامی جذبے سے کام نہیں کریں گے۔‘ وزیر اعلیٰ فردنویس نے اپنا پلّہ جھاڑتے ہوئے کہا کہ ’مذکورہ کارروائی سے ریاستی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ای ڈی منی لانڈرنگ کے زاویے سے کارروائی کر رہی ہے‘۔ ادھر شردپوار نے ان پر لگائے گئے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’مہاراشٹر شیواجی کی ریاست ہے، ہمیں یہ سنسکار ملا ہے کہ ہم دہلی تخت کے آگے نہیں جھکیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ہم از خود 27 ستمبر کو ای ڈی دفتر میں جائیں گے اور انہیں جو معلومات درکار ہوگی وہ دیں گے۔
بہرحال مہاراشٹر میں سیاسی پارہ بڑی تیزی سے چڑھتا نظر آرہا ہے۔ کانگریس و این سی پی اگر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں تو سینا و بی جے پی سبقت وبالا دستی کے فراق میں ہیں۔ پانچ دن قبل مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ممبئی ریلی کے دوران کشمیر اور 370 جیسے ایشوز پر بات کرتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ اس بار مہاراشٹر میں صوبائی ایشوز پر نہیں بلکہ بالاکوٹ اور کشمیر جیسے مدعوں پر ہی انتخاب لڑا جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف نے حال ہی میں بیان جاری کیا ہے کہ بالاکوٹ میں دہشت گرد ایک مرتبہ پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کو سرجیکل اسٹرائک اور پلوامہ و بالاکوٹ جیسے ایشوز کا خاطر خواہ فائدہ ہوا تھا، یہ ایسے ایشوز ہیں جس کے سامنے ملک کی معاشی بدحالی کو بھی ہندوستان کے عوام نظر انداز کرجاتے ہیں۔ سو ایک بار پھر ہریانہ و مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں ایسے ہی پنیترے آزمائے جائیں گے۔
مہاراشٹر میں جہاں تک شیوسینا۔بی جے پی اتحاد کی بات ہے تو بی جے پی اپنی حلیف پارٹی شیوسینا کے ساتھ انتخابی دنگل میں زور آزمائی کا اعلان کرچکی ہے لیکن بی جے پی کے ہاؤ بھاؤ بتارہے ہیں کہ وہ اکیلے دم پر سرکار بنانے کا داؤں پیچ کھیل رہی ہے اور ریاست میں کانگریس و این سی پی کی کمزور ساکھ کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی تگ و دو میں ہے۔ تادمِ تحریر بی جے پی اور شیوسینا نے اپنے اتحاد کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے، دونوں میں سیٹوں کی تقسیم کو لے کر اب بھی رسہ کشی جاری ہے۔ پارلیمانی انتخاب کے وقت شیوسینا حلقہ سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں دونوں پارٹیاں ففٹی 50 فارمولہ پر عمل کریں گی اور جس پارٹی کے ایم ایل اے زیادہ ہوں گے اسی کا وزیراعلیٰ ہوگا، لیکن اب یہ بات سامنے آرہی ہے کہ سیٹوں کی تقسیم معاملے میں بی جے پی نے ایک مرتبہ پھر شیوسینا کو زیر کردیا ہے اور 146 سیٹوں پر بی جے پی نیز 120 سیٹوں پر شیوسینا کا لڑنا طے پایا ہے۔ یہ اعداد طے ہونے کے باوجود کوئی حتمی اعلان اب تک سامنے نہیں آیا اور نہ ہی امیدواروں کی کوئی فہرست جاری ہوئی ہے کہ کس سیٹ پر کس پارٹی کا امیدوار ہوگا۔ کسی زمانے میں بی جے پی کو سہارا دینے والی سینا آج فردنویس حکومت کے سامنے بے بس سی نظر آرہی ہے، اس کی حیثیت ایک جونیئر پارٹی کی سی ہوگئی ہے۔ کیونکہ جس طرح سے دیگر ریاستوں میں بی جے پی کا گیراف بڑھا ہے اسی طرح مہاراشٹر میں بھی بی جے پی اپنی حلیف پارٹی شیوسینا سے کہیں آگے بڑھ گئی ہے۔ اس لئے بی جے پی اب یہ قطعی نہیں چاہے گی کہ سینا دوبارہ اس سے آگے بڑھے۔ دراصل مہاراشٹر ہی ایک ایسی ریاست ہے جہاں لوگ اب بھی بھگوا جھنڈا کی علامت بی جے پی کو نہیں بلکہ شیوسینا کو مانتے ہیں اور بی جے پی کو شیوسینا کی یہ روایتی شناخت پسند نہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بے جے پی کا مشن صرف ’کانگریس مُکت بھارت‘ نہیں بلکہ ’ایکلا چالو رے‘ والی نیت و نیتی بھی ہے۔