عدم تحفظ : فانوس بن کے کس کی حفاظت خدا کرے؟
ڈاکٹر سلیم خان
ارشاد ربانی ہے ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۰۰۰‘‘،ابلیس کے شاگردوں کی یہ کوشش چونکہ فطرت انسانی کے خلاف ہے اس لیےمزاحمت ہوتی ہے۔ اس رکاوٹ پرقابوپانے کی خاطر مفلسی کا خوف پیدا کرکے عدم تحفظ کا حربہ آزمایاجاتاہے۔ جن اہل ایمان کااس آیت پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ ’’ اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے‘‘ وہ شیطان کی چال سے محفوظ رہتے ہیں ۔ ان کی بابت فرمایا ’’ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں‘‘۔ ایسے لوگوں کو ’’ ۰۰۰اللہ اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے(۲:۲۶۸)‘‘۔ امید اور خوف چونکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں اللہ سے ناامید ی ظالموں کے خوف میں مبتلا کرکے شرمناک طرز عمل اختیار کرواتی ہے ۔ کشمیر اور قومیت جیسے مسائل میں زعمائے ملت کے بزدلانہ موقف کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
عدم تحفظ پر قابو پانے کے لیے نبی کریم ﷺ نےابن عباسؓ کو یہ تلقین فرمائی ہے کہ ’’ ہمیشہ اللہ کو یاد رکھ وہ تجھے محفوظ رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھ اسے اپنے سامنے پائے گا‘‘۔ذات باری تعالیٰ سے غفلت یا دوری انسان میں غیر محفوظ ہونے کا احساس پیداکرتی ہے۔ اس لیے یہ بات ہمیشہ مستحضر رہنی چاہیے کہ ’’اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ جس شخص کے آس پاس ہو وہ بھلا انسانوں سے مرعوب یا خوفزدہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ اس فکری بالیدگی کےبعد عملی نصیحت یہ فرمائی کہ ’’ جب مانگے تو اللہ تعالیٰ سے مانگ اور اگر مدد طلب کرو تو صرف اسی سے مانگو‘‘۔ مشکل حالات میں عزیمت کے اس موقف کو اختیار کرنے کے لیے لازم ہے کہ حدیث کا اگلے حصہ پریقین ِکامل ہو ۔ فرمایا، ’’ اور جان لو کہ اگر پوری امت (ساری دنیا) اس بات پر متفق ہوجائے کہ تمہیں کسی چیز میں فائدہ پہنچائیں تو بھی وہ صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر تمہیں نقصان پہنچانے پر اتفاق کرلیں تو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا۔ اس لیے کہ قلم اٹھا دیئے گئے اور صحیفے خشک ہوچکے‘‘۔ ایمانیات کے اندر تقدیر پر پختہ عقیدہ توحید کے تقاضے، سنت کی پیروی اور آخرت کی فلاح کے لیے شرطِ لازم ہے۔
اس حدیث میں لفظ ’احفظ ‘ سے مراد یاد کرنے کے علاوہ حفاظت کرنے کے بھی لیے گئے ہیں یعنی ’’احفظ اللہ یحفظک احفظ اللہ تجدتجاھک‘‘ کا ترجمہ اس طرح کیا گیا کہ ’’ اللہ کی حفاظت کرو (اس کے احکام کی) ، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا، اللہ کی حفاظت کرو تم اسے اپنے سامنے پاؤگے۰۰۰‘‘۔ باطل قوتیں اہل ایمان کو دین حق سے برگشتہ کرنے کی خاطر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرتی ہیں ۔ عام حالات میں دین پر عمل کرنا قدرے سہل ہوتا ہے لیکن آزمائش کے وقت مشکل ہوجاتا ہے۔ آزمائش دراصل صبر واستقامت کا امتحان لینے کے لیے ہی تو آتی ہے ۔ اسی دورا ن مخلص اہل ایمان رب کائنات کے قرب سے نوازے جاتے ہیں اور برگزیدہ بندوں میں شامل کیے جاتے ہیں ۔ اس لیے ان حالات میں اللہ کے دین کی پیروی کرنا، اس کی مدافعت کر تے ہوئے سربلندی و نفاذ کی جدوجہد میں اپنے آپ کو جھونک دینا ، اہل ایمان کو رب کائنات کی محفوظ و مامون پناہ عطا کرتا ہے ۔ عدم تحفظ کےاحساس سے بچنے کی یہ سبیل ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ’’تم اللہ (کے احکام) کی حفاظت کرواسے تم سامنے پاؤگے،تم خوش حالی میں اس کی طرف رجوع کرو وہ تنگ دستی کے وقت تمھاری مدد فرمائے گا، جان لو! جو چیز تمھیں نہیں ملی وہ تمھیں مل ہی نہیں سکتی تھی اور جو کچھ تمھیں مل گیا ہے اس سے تم محروم نہیں رہ سکتے تھے، اور یاد رکھو! اللہ کی مدد صبر سے وابستہ ہے، مصیبت کے بعد کشادگی آتی ہے، اور تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے‘‘۔