فکرو عمل سے فردو عمل تک
ڈاکٹر سلیم خان
حرکت و عمل کی انفرادی ضرورت اجتماعی بن جائے توتحریک کہلاتی ہے ۔ تحریکات میں کبھی فکر و نظر تو کبھی عمل کا پہلو غالب ہوجاتا ہے لیکن ہر تحریک کا جسم حسنِ عمل ہے اور روح فکر و نظر ہے۔ تحریک کی سائیکل کا اگلا پہیہ فکر ہے جو ہینڈل سے منسلک ہوتا ہے اور تحریک کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ تحریک کا پچھلا پہیہ عمل ہے پینڈل سےجڑا رہتا ہے اور اس پر زور لگایا جاتا ہے۔ فکر کی بنیاد پرتحریک میں شامل افراد بنیاں المرصوص بن جاتے ہیں عملی جدوجہد انہیں آگے بڑھاتی ہے۔ تحریک کی فکری جڑیں کارکنان کے قلب وذہن میں گہرائی تک اتر کر اس کو استحکام بخشتی ہیں ۔ اس کے ساتھ عمل پیہم تحریک کے وسعت و مقبولیت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اسلامی تحریک فکر و عمل کا بہترین امتزاج ہوتی ہے۔اسلام میں اعمال سے قبل عقیدہ ہر عمل کو نیت سے جوڑ دیتا ہے۔ فکر و عمل کے درمیان صحتمند توازن ہرتحریک کے وسعت و استحکام کا ضامن ہوتا ہے۔
دنیا کی تمام تحریکات اپنی ابتداء میں فکر پر زیادہ زور دیتی ہیں ۔ اس مرحلے میں فرد بشمول رہنما اور کارکنان ثانوی درجہ میں ہوتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ فکری انحطاط پیر پسارنے لگے تو فرد کی یعنی رہنما کی اہمیت میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ وطن عزیز کی غیر دینی تحریکات میں کانگریس ایک زمانے تک مخصوص فکر کی حامل تھی ۔ گاندھی جی سے لے کر پنڈت جی تک سبھی اپنے قلم و زبان فکر ونظر کی ترویج و اشاعت کا کام کرتے تھے لیکن اندراجی کے زمانے تک فکری محاذ خالی ہوگیا ۔ اس کے بعد کانگریس پارٹی اندراگاندھی سے منسوب ہوگئی اورکانگریس کے صدر دیوکانت بروا نے ایمرجنسی کے دوران جب یہ نعرہ دیا کہ ‘اندرا ہی انڈیا ہے اور انڈیا دراصل اندرا ہے’ تو کانگریس میں کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا اور اب حال یہ ہے کہ راہل کے انکار نے سونیا گاندھی کو قیادت سنبھالنے پر مجبور کردیا کیونکہ ایک خاندان کے ا فراد نے نظریہ کی جگہ لےلی ہے ۔
بی جے پی کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ایک زمانے تک یہ تحریک سنگھ کے طرزِ فکر کی حامل تھی ۔ دین دیال اپادھیائے اس نظریہ کو اپنے زورِ قلم سے پھیلاتے تھے ۔ اس سلسلے کو بلراج مدھوک نے آگے بڑھایا اور لال کرشن اڈوانی تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ قومی اخبارات میں اڈوانی کے مضامین شائع ہوتے رہے اوران کی کتابیں بھی چھپتی رہیں لیکن پھر مودی یگ آیا اور ‘ہر ہر مودی گھر گھر مودی ’ کا نعرہ بلند ہوا۔ بی جے پی کے منشور سے متعلق ایک بڑے رہنما نے پریس کانفرنس میں اعلان کردیا کہ مودی جو کچھ کہتے ہیں وہی ہمارا مینی فیسٹو ہے اس لیے ہم اس ضرورت سے بے نیاز ہیں ۔ اب یہ حال ہے کہ وزیر داخلہ بن جانے کے باوجود نریندرمودی کے دست راست امیت شاہ پارٹی صدارت سے چمٹے ہوئے ہیں اور بی جے پی کے اندر کسی مجال نہیں ہے کہ اس پر لب کشائی کرے ۔ بی جے پی کے اندرمودی کی جانب نگاہِ غلط ڈالنے والےکی آنکھ سلامت نہیں رہ سکتی ۔
جنتا پریوار اور دلت تحریکات کی حالت مختلف نہیں ہے۔ رام منوہر لوہیا سماجوادی تحریک کے دانشور رہنماتھے ۔ جئے پرکاش تک یہ ایک فکری تحریک تھی لیکن بعدمیں مختلف خاندانوں کی ملکیت بن گئی ۔ کہیں لالو پریوار تو کہیں ملائم خاندان اس پر قابض ہے، کرناٹک کے دیوے گوڑا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔ دلت تحریکات میں ڈاکٹر امبیڈکر نے بہت علمی کام کیا جس کو کانشی رام نے آگے بڑھایالیکن مایاوتی کے آتے آتے سب کچھ فرد کی ذات تک محدود ہوگیا۔ مہاراشٹر میں ری پبلکن اور تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کی حالت مختلف نہیں ہے۔ بعض دینی تحریکات بھی افراد کے نام سے موسوم ہونے لگی ہیں ۔ اسلامی تحریک کو اس بابت بہت محتاط اور چوکناّ رہنا چاہیے کیونکہ کسی بھی تحریک میں فکر کی جگہ فرد لے سکتا ہے ۔ امام حسینؓ کی شہادت فکر پر فرد کی فوقیت کے خلاف مزاحمت بھی ہے۔ فکرکے بغیر بے روح تحریک فرد کے وینٹی لیٹر پر دم توڑنے لگتی ہے اور شاعر کو کہنا پڑتا ہے؎
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے