کوٸی دیکھے جگر کے جانے کا

کوٸی دیکھے جگر کے جانے کا , ہمشیرہ کے سانحہ ارتحال پر لکھی گٸی تحریر : از … شمیم ریحان ندوی

( ہمشیرہ کے سانحہ ارتحال پر لکھی گٸی تحریر)

از …………شمیم ریحان ندوی

31 اگست 2019 بروز ہفتہ صبح کی سپیدی میرے وجود میں بحر ظلمات بن کر نمودار ہوٸی، ایک دلدوز خبر نے ہمارے دل و دماغ کو شل کردیا، پورا کنبہ بلبلا اٹھا، سارا خاندان سراپا تصویر غم بن گیا، پورے گاوں اور علاقے میں کہرام مچ گیا، اطراف واکناف کے لوگ سکتے میں آگٸے۔
ہر کس وناکس کی زباں پہ بس ایک یہی سوال تھا کہ : آخر ہوا کیا تھا ؟ ہر فرد کی آنکھیں لبالب تھیں، جس نے سنا جگر تھام لیا، ماں مجسم ملال کی مورت ، بھاٸی صدمے سے نڈھال، بہنیں گریہ و زاری میں مبتلا، رشتے دار سوگوار، متعلقین غموں سے چور ، ہر کوٸی تسلی و دلجوٸی کا محتاج، تعزیت کون کرے ، پرسے میں کون آٸے، سبھی ماتم کناں تھے،
مشیت الہی یہی تھی، قضا کو کوٸی ٹال نہیں سکتا،پردیس کی موت مقدر تھی،کم عمری میں دار فنا سے دار بقا کو کوچ کرجانا قدرت کا فیصلہ تھا،
اتنی ہی زندگی نصیب میں تھی ، دنیا میں کوٸی آب حیات پی کر نہیں آیا، دنیا دل لگانے کی جگہ ہے بھی نہیں، میری چھوٹی ہمشیرہ داغ مفارقت دے گٸی،آنا فانا لقمہ ٕ اجل بن گٸی، بخار تو ایک بہانہ تھا، صبر کے علاوہ راستہ ہی کیا ہے:

انا للہ وانا الیه رٰجعون

إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلُّ شَىْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِب ۔

ناچیز رقم طراز بھاٸی پر تو یہ دردناک خبر بجلی بن کر گری ، اور مرغ بسمل کی طرح تڑپ اٹھا۔ سب سے چھوٹی بہن تھی، گود میں کھیلی ہوٸی، بڑی انسیت تھی اس سے مجھے،بیٹی کے بجاٸے اسی کا نام زبان پہ اکثر آجاتا تھا۔جگر کے پاس تھی وہ۔
مرحومہ مغفورہ نیک خاتون تھیں۔صابرہ و شاکرہ تھیں ، سب بھاٸی بہنوں کی چہیتی،کچھ بھی ہوتا چھوٹی بہن کہ کر سب معاف کر دیتے تھے،ملنسار تھیں،محلے کی خواتین کا ان کے دل میں احترام تھا،والدہ کی بہت دنوں تک خدمت کی،بھابیوں سے اچھے تعلقات تھے اور سسرال والوں کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں، اللہ پاک ان کو غریق رحمت فرماٸے۔آمین
اس حادثہ ٕ عظیم کو سن کر میں فورا اپنی کمین گاہ ممبٸی سے پرواز سفر ہوا ، اور تجہیز و تکفین میں شرکت کی سعادت حاصل کی ، اپنےاہل خانہ کو روتا بلکتا دیکھ کر دل کو بہت زیادہ ٹھیس پہنچی، ہر کوٸی پیکر غم بنا ہوا تھا، والدہ بلک رہی تھیں،بہنوں کی آنکھوں میں آنسو خشک ہو چکے تھے، دل کا طوفان چہروں پہ عیاں تھا، ہر طرف رونے چیخنے کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں ، اللہ پاک سے صبر جمیل کی دعا دل سے نکل رہی تھی، بارہا ضبط کی تلقین کے باوجود صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔صبر کے علاوہ راستہ ہی کیا تھا۔
کسی طرح طوفان تھما، اور غسل و تکفین کے فراٸض پورے کٸے گٸے،اور چہیتوں کو روتا بلکتاچھوڑ کرجنازہ قبرستان کی طرف روانہ ہو گٸی۔
سانحہ ٕ ارتحال کی غم ناک خبر سن کر اطراف واکناف اور دور دراز کے علاقوں سے مرد و زن کا جم غفیر امڈ پڑا، خواتین کا اژدحام مرحومہ کے دیدار کے لٸے ٹوٹ پڑا ، غیر مسلم خواتین کی بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی ، اہل خانہ کو کافی دقتیں پیش آرہی تھیں ، لوگ باگ نماز جنازہ میں شرکت کے لٸے ہر چہار جانب سے جوق در جوق آنے لگے، جنازہ گاہ ناکافی ہوگٸی۔صفیں سڑک کی حدوں کو چھو گٸیں۔
بہرحال نماز جنازہ مغرب کی نماز کے بعد ادا کی گٸی ، قدآور عالم دین برادرحضرت مولانا عبد الرب قاسمی مد ظلہ العالی( استاذ کبیر مدرسہ رحمانیہ سوپول بازار،دربھنگہ ،بہار ) نے نماز جنازہ پڑھاٸی۔تدفین جنازہ گاہ کے بازو والے قبرستان میں ہوٸی۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے تدفین میں بھی شرکت کی۔فاتحہ خوانی کے بعد سب کی لبوں پہ بس یہی دعا تھی :

اللهم اغفر لھا وارحمھا وعافھا واعف عنھا ووسع مدخلھا واكرم نزلھا واغسلھا بالماء والثلج والبرد ونقھا من الذنوب والخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم جازيھا بالحسنات إحسانا وبالسيئات عفوا وغفرانا۔

برحمتك يا ارحم الراحمين

ایصال ثواب کی جملہ رسومات شرعیہ ادا کرنے کے بعد پھر یہ مغموم بھاٸی ممبٸی واپسی کے لٸے 4 ستمبر 2019 کوعازم سفر ہوا اور اہل خانہ کو صبر کی تلقین کرتے ہوٸے دل میں زندگی بھر کا ملال چھپاکر اپنی عارضی کمین گاہ پر واپس ہوا ۔

اللھم ارحم علینا واغفرلنا فی الدنیا و الآخرة

اپیل :

امت مسلمہ کے ہر فرد سے اپیل ہے کہ مرحومہ کو اپنی خصوصی دعاوں میں یاد رکھیں ، ان کے لٸے مغفرت کی دعا فرماٸیں ، اللہ پاک ان کو اعل علیین میں جگہ عطا فرماٸے ،جنة الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماٸے اور اہل خانہ و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرماٸے۔آمین